مکررات القرآن، الندوه میں شائع ہونے والی سید سلیمان صاحب کی تحریر افادۂ عام کے لئے مرکز الحریم کی متخصصات نے نشر کی ہے۔

کاوش:مفتیہ صائمہ امان اللہ، معلمہ ام عروہ ، مفتیہ نمل، مفتیہ نورین،معلمہ ام مصطفیٰ، معلمہ آمنہ، مفتیہ زنیرہ، معلمہ میمونہ۔ مفتیہ مریم

الندوہ
مکررات القرآن
یعنی
قرآن مجید میں مکرر آیتیں کیوں ہیں؟

photo of quran beside lighted candle


ایک دن نواب صدیق حسن خان کی تفسیر دیکھ رہا تھا کہ اس عبارت پر نظر پڑی
وقد نبغت فی ھذاالزمان طائفة تفسر القرآن برایھا وتحذف منہ الایات المتوالیات تسمی بالنیفریة
اس زمانے میں ایک قرقہ پیدا ہوا ہے جو اپنی رائے سے قرآن کی تفسیر کرتا ہے اور مکرر آیتوں کو قرآن سے خارج سمجھتا ہے اس فرقہ کا نام نیفریہ (نیچری) ہے

کیا ہندوستان میں کوئی ایسا فرقہ بھی ہے جو مکرر آیتوں کو خارج از قرآن سمجھتا ہوں ؟
بہرحال مخالفین اسلام کا قرآن مجید کے اسلوب بلاغت پر ایک یہ اعتراض ہے کہ قرآن مجید میں ایک ہی قصہ مکرر سہ کرر بیان ہوتا ہے ایک ہی آیت بار بار آتی ہے ایک ہی بات سو سو دفعہ دہرائی جاتی ہے۔

تکرار سے کیا حاصل؟ اس سے کلام کا لطف جاتا رہتا ہے۔ اور کلام بد مزہ ہوجاتا ہے۔ پوری کتاب میں ایک بات کو ایک دفعہ کہ دینا کافی ہے۔ قرآن مجید میں حضرت آدم، حضرت عیسی، حضرت موسی علیہم السلام کے قصے ہر جگہ بیان کیے گئے ہیں۔ سورہ الرحمٰن میں فبأي اٰلاء ربكما تكذبٰن اور سورہ مرسلات میں ويل يومئذ للمكذبين ایک ایک آیت کے بعد ہے اور بعض جگہ بالکل بے جوڑ ہے۔

لیکن یہ اعتراض کوئی نیا اعتراض نہیں، علماء اسلام نے اس کے متعدد جوابات دیے ہیں۔ علامہ کرمانی متوفی 786ھ نے ایک مستقل رسالہ اس باب میں لکھا ہے جس میں انہوں نے اپنی تھیوری یہ قرار دی ہے کہ قرآن پاک میں کوئی بات مکرر نہیں، اس بنا پرجہاں جہاں قرآن پاک میں ایک ہی معنی مکرر معلوم ہوتے ہیں وہاں یہ ثابت کیا ہے کہ ہر جگہ مختلف معنی مراد ہیں اس لیے یہ اعتراض ہی غلط ہے کہ قرآن مجید میں ایک ہی بات بار بار آتی ہے۔

مثنوی میں مولانا رومی نے اس اعتراض کا ایک اور جواب دیا ہے گو شاعرانہ استدلال ہے مگر نہایت لطیف ہے وہ کہتے ہیں ہم روزانہ دن رات ایک ہی کھانا کھاتے ہیں اور ایک ہی قسم کا پانی پیتے ہیں مگر ہمیں کبھی اس بات کی شکایت نہیں ہوتی کہ بار بار ہم ایک ہی کھانا اور ایک ہی قسم کا پانی کیوں پیتے ہیں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب ہم کھانا کھاتے ہیں یا پانی پیتے ہیں تو ہمیں ایک نئی بھوک اور نئی پیاس لگتی ہے اس لیے ہر وقت کے پانی میں ہمیں ایک نیا لطف ملتا ہے اور ہم یہ نہیں کہتے یہ تو وہی پانی ہے جو ہم بار بار پی چکے۔ اب اس میں کیا مزہ رہا؟ اسی طرح جو لوگ تشنہ ایمان ہیں اور جن کو سرچشمہ ایمان کی تلاش ہے ان کو ہر آیت میں ایک نیا لطف حاصل ہوتا ہے اور ایک نئی لذت ملتی ہے۔ اس لیے ان کو تکرار بد مزہ نہیں معلوم ہوتی۔

غرردررمین شریف مرتضی علم الہدی (المتوفی 436ھ) نے اور الفوز الکبیر میں شاہ ولی اللہ صاحب نے بھی مکررات قرآن پر مفصل بحثیں کی ہیں لیکن اصل یہ ہے کہ قرآن مجید میں جو تکراریں ہیں وہ مختلف قسم کی ہیں اور ان بزرگوں نے جو جوابات دیے ہیں وہ صرف خاص خاص قسم کی تکراروں کے متعلق ہیں اس لیے اوّل ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ قرآن مجید میں کس کس قسم کی تکرار ہے
قرآن مجید کو غور سے شروع سے آخر تک پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسمیں دو قسم کی تکرار ہے، لفظی تکرار اور معنوی تکرار

معنوی تکرار سے مقصود ہے ایک ہی مفہوم اور ایک ہی معنی کو خاص الفاظ کی پابندی کے بغیر بار بار کہنا قرآن مجید میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قصہ یا نماز کی تاکید مختلف الفاظ میں جابجا آئی ہے، لیکِن انِ معنوں کے اداکرنے کے لئے کوئی خاص عبارت نہیں اختیار کی گئی ہے بلکہ مختلف طرز اور مختلف طریقوں سے ایک ہی مفہوم کو ادا کیا گیا ہے۔

لفظی تکرار سے مراد یہ ہے کہ ایک ہی مفہوم کو کیسی خاص عبارت اور الفاظ کے ساتھ بار بار ادا کرنا، مثلا سورۃ الرحمن میں فباي الاء ربكما تكذبان کی تکرار ، شریف مرتضی کا جواب اسی تکرار سے متعلق ہے ہم پہلے معنوی تکرار کو بیان کرتے ہیں۔

معنوی تکرار عموما چند موقعوں پر ہے بعض خاص پر اثر قصوں کی تکرار مثلا حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت آدم کا قصہ اور بعض خاص خاص فرائض اور عقائد کی تکرار ، مثلا نماز، و توحید، و معاد کا بیان ، خدا کے صفات و احسانات اور مظاہر قدرت کا ذکر۔

تکرار قصص قرآن مجید میں جو قصے مذکور ہیں وہ دو قسم کے ہیں، بعض قصے ايسے ہیں جنکا بیان قرآن مجید میں دہرا دہرا کر آتا ہے ، مثلا حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قصے اور بعض ایسے قصے ہیں جنکا ذکر قرآن مجید میں کہیں ایک موقع پر آگیا ہے اور دوسری مرتبہ انکا بالکل ذکر نہیں ہوتا، مثلا ذو القرنین، اصحاب کہف، حضرت یوسف، حضرت یونس، حضرت زکریا، حضرت داؤد، حضرت سلیمان، حضرت طالوت و غیرہ کے قصے(صلوات اللہ عنہم اجمعین)
جن انبیاء کے قصے بار بار اتے ہے وہ صرف چار ہیں، حضرت آدم علیہ السلام، حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت عیسیٰ علیہ السلام ۔
اسکے متعلق دو باتیں قابل غور ہیں
اولاً یہ کہ انھیں چار انبیاء کے قصے دہراے جاتے ہیں

ثانیاً یہ کے انکے دہرانے کی ضرورت کیا ہے؟
سب سے پہلے ہم کو اسپر غور کرنا چاہیے کہ قرآن مجید میں اکثریت سے قصے کیوں مذکور ہیں؟ اصل یہ ہے کہ انسان کی فطرت میں یہ داخل ہے کہ وہ غیروں کے حالات اور سر گزشت سے بالطبع نصیحت حاصل کرتا ہے اور متاثر ہوتا ہے

اس بنا پر قرآن مجید میں اور تمام کتب سماوی میں جابجا قصے مذکور ہیں جن سے ثابت ہیں کہ قومیں خدا کے نافرمانی سے کس قدر مبتلا ے آلام ہوتی ہیں اور نیک نفس قوموں کو کس قدر عروج و راحت عطاکر تو ہے لیکن چونکہ اس قسم کے قصے جب تک بار بار کان میں نہ ڈالے جائیں ان سے صحیح عبرت اور کامل اثر نہیں حاصل ہوتا اسلئے قرآن مجید میں ایسے عبرتناک قصے بار بار دہرائے جاتے ہیں
ایک بڑی وجہ ان قصوں کی تکرار کی یہ ھیکہ جس طرح دلیل مختلف دعووں پر اثر کرتی ہیں ایک قصے سے مختلف نتائج مستنبط ہوتے ہیں اور متعدد موقعوں پر ان سے اشتہار پیش کیا جاتا ہیں اسلئے ہر جگہ ان قصوں کے اعادہ سے مختلف نتائج پیدا ہورے ہیں مثلاً حضرت موسی علیہ سلام کا قصہ قرآن میں بار بار آیا ہیں مگر غور کو ہر جگہ ایک جدید نتیجہ کی طرف اس سے اشارہ کیا گیا ہیں لیکن کہیں تو حضرت موسی علیہ سلام کا قصہ اظہار قدرت کے موقع پر بیان کیا گیا ہیں لیکن بنی اسرائیل پر اس قصہ سے خدا نے اپنے احسانات کا اظہار کیا ہیں کہیں نافرمان قوموں کی ہلاکت پر اس قصہ سے اشتہاد کیا گیا ہیں لیکن اس سے بنی اسرائیل کی شرارت اور کفر ان نعمت ثابت کیا گیا ہیں کہیں اس قصہ کے زریعہ سے سچے نبی اور جھوٹے لوگوں میں خدا نے فرق بتا دیا ہیں کہیں اس سے خدا نے حضرت موسی علیہ سلام پر اظہار احسان کیا ہیں کہیں اس سے فرعون کے کفر غرور اور نخوت کا تذکرہ مقصود ہیں ، کہیں اس سے انسان کی فطرتی کمزوری کا اظہار کیا گیا ہیں
حضرت لوط علیہ سلام کے قصہ سے ، خدا کے احسانات ، انسان کی کمزوری ، نفس امّارہ کی شرارت ،نوع انسان کی عظمت ، غرور کی مذمت مختلف باتوں پر استدلال ہوسکتا ہیں
غرضکہ تم اس سے نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ صرف ایک قصہ سے کس قدر مختلف نتیجے پیدا ہوسکتے ہیں قرآن مجید میں جو ایک ہی قصے کی بار بار تکرار ہوتی ہیں دراصل ہر جگہ اس قصہ سے ایک جدید نتیجہ کی طرف اشارہ مقصود ہوتا ہیں اسلئے وہ تکرار غیر مفید نہیں ہوتی ،
جیسا کہ ہم نے اوپر اشارہ کیا ہیں کہ یہاں پہنچ کر یہ سوال پیدا ہوتا ھیکہ تمام انبیاء میں سے صرف چند خاص انبیاء حضرت آدم علیہ سلام ، حضرت ابراھیم علیہ سلام ، حضرت موسی علیہ سلام ، حضرت عیسی علیہ سلام کے واقعات کا اعادہ کیوں بار بار ہوتا ہے اسکا تحقیقی جواب یہ ہے کہ قرآن مجید کے اصلی مخاطب صرف چار تھے عموما عام انسان، اور خصوصا مشرکین عرب، یہود اور نصاریٰ ،عام نوع انسان کی عبرت اور تاثر کے لئے حضرت آدم علیہ السلام کے قصے کی تکرار کی جاتی ہے اور مشرکین عرب چونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بے انتہا گرویدہ اور معتقد تھے اس لیے ان کے لیے حضرت ابراہیم کے واقعات سےاور یہودیوں کے لیے حضرت موسی علیہ السلام اور نصاریٰ کے لئے حضرت عیسی علیہ السلام کے قصوں سے استدلال پیش کیا جاتا ہے اور انہی چار انبیاء کے نام اور قصے بار بار آتے ہیں ،اور چونکہ عرب میں خصوصاً مدینہ میں یہودی زیادہ تر آباد تھے اس لیے حضرت موسی علیہ الصلاۃ والسلام کا نام سب سے زیادہ آیا ہے ان کے بعد مشرکین کا درجہ ہے جن کو حضرت ابراہیم علیہ السلام سے تعلق ہے اور آخر میں عیسائی ہیں چنانچہ اس کی تصدیق ذیل کی تفصیل سے ہوگی ،
حضرت موسی علیہ السلام کا نام قرآن مجید میں ایک سو پینتیس مرتبہ ایا ہے
حضرت ابراہیم علیہ السلام کا نام قرآن مجید میں چھیاسٹھ مرتبہ آیا ہے
حضرت عیسی علیہ السلام کا نام قرآن مجید میں جوبیس مرتبہ آیا ہے
فرائض و عقائد کی تکرار
قرآن مجید میں اکثر فرائض اور عقائد کا بیان نہایت تکرار کے ساتھ آتا ہے اور یہ دراصل وہی چیزیں ہیں
جو مبنائے اسلام ہیں، اور وہ حسب ذیل ہیں۔
ایمان، نماز ،زکوة ،توحید،صفات خدا، تاکید یاد خدا ،اظہار قدرت خدا ،مذمت شرک، کی قیامت،حشر، جزا ،سزا، ذکر موت،ذکر دوزخ و جنت ،مزمت دنیا ،اخلاق و عمل صالح
یہی بیانات ہے جن کا ذکر قرآن مجید میں ہر جگہ بار بار آتا ہے اور خصوصاً ان میں سے ایمان، نماز، توحید ومزمت شرک ،و دوزخ و جنت ،کا ذکر قرآن مجید میں نہایت کثرت سے ہے جس کا اندازہ ذیل کے بیان سے ہوگا
مدح توحید و مزمت شرک و کفر کا ذکر قرآن مجید میں تین سو پچاس مرتبہ سے زیادہ آیا ہے
ایمان کا ذکر اور حکم قرآن مجید میں تین سو مرتبہ آیا ہے

بہشت کا ذکر قرآن مجید میں تقریبا ایک سو پچانوے مرتبہ آیا ھے۔
دوزخ کا ذکر قرآن مجید میں تقریبا دوسو مرتبہ آیا ھے۔
نماز کا ذکر اور حکم قرآن مجید میں تقریبا سو مرتبہ سے زیادہ آیا ھے۔
شاہ ولی اللہ صاحب نے ان مذکورہ بالا فرائض اور عقائد کے متعلق الفوز الکبیر میں ایک بہت دلچسپ بحث لکھی ھے جسکا خلاصہ ھے کہ خدا نے قرآن مجید میں جن امور کا ذکر کیا ھے وہ دو طرح کے ہیں۔
اول؛
وہ امور ہیں جو محض قانونی اور تشریعی حکم رکھتے ہیں اور جن سے مقصد صرف یہ ھے کہ مخاطب کو انکا علم ہو جائے مثلا طلاق، خلا، ظہار ،وراثت، ایلا، سزائے سرقہ، قصاص، شہادت، اور زنا کی سزا وغیرہ۔
دوئم۔
وہ امور ہیں جو قانونی اور تشریعی نہیں ہیں بلکہ وہ ایسے عقائد اور اعمال ہیں جنکے متعلق خدا چاہتا ھے کہ وہ انسان پر چھا جائے۔انسان میں سما جائےاور انسان بالکل اس رنگ میں رنگ جائے۔اور انسان انکا سحت معتقد یا پابند ہو جائے۔خدا ان چیزوں کو بار بار کہتا ھے اور سو سو دفعہ دہراتا ھے کہ مخاطب اسقدر متاثر ہو جائے کہ ہل نہ سکے۔
ایمان، نماز،یاد خدا،توحید، حشر، جزا،سزا وغیرہ جسکا ذکر قرآن مجید میں ہر جگہ ھے ۔وہ اسی قسم کے امور سن کر جنکی تکرار سے مقصود یہ ہے کہ یہ چیزیں نفس پر بالکل چھا جایئں
اسکی کی صحیح مثال یہ ھے کہ اگر ہم خیام اور حافظ کو غور سے پڑھیں تو معلوم ہو سکتا ھے کہ انکے پاس رندی و عاشقی کے صرف چند مضامین ہیں جنکو کو وہ الٹ پلٹ کر ہمیشہ باندھا کرتے ہیں۔لیکن ہمارے جب انکا کوئی شعر ا جاتا ھے تو ہم اس سے ایک نیا لطف حاصل کرتے ہیں۔قرآن مجید کی بار بار تلاوت کرنے کا اسلام نے جو حکم دیا ھے اسکا بھی یہی راز ھے ۔
شاہ صاحب کی اصلی عبارت یہ ھے ۔

اگرچہ سند مطالب فنون خمسہ چر اور قرآن عظیم مکرر گفتہ شد چرا
یک موضع اکتفا۔
نرفت، گویم،انچہ خواہم کہ سامع را انادہ نمائم دو قسم ی باشد۔
تعلیم بالا یعلم بود،پس مخاطب غیر معلوم امر

حکمے رانمی دانست و ذہن و ادراک و نکردہ بود باستماع عین کلام آن مجہول معلوم شود
و آن نا دانستہ،دانستہ گردو و دیگر آنکہ مقصود استحضار صورت آن علم در مدرکہ او باشد تا ازان
لذت فراوان گیرد دقو اے قلبیہ داد راکیہ دران علم فانی شوند و رنگ این علم برہمہ قوی غالب
آید چنانکہ معنی شعری رآ کہ ما آن را دانستہ ایم مکررمی گوید ہر بار لذتے می یابیم،و بر این لذت
تکرار آن دوست می و اریم۔۔۔۔ ولہذا در شریعت بہ تکرار تلاوت امر فرمودند
(فوز الکبیر مطبوعہ کلکتہ صفحہ ٨٦…، ٨٧)
یہ جواب حرف با حرف صحیح ہے، اور اس پر اب کسی اضافی کی گنجائش نہیں
《 لفظی تکرار》 قرآن مجید میں لفظی تکرار بھی بہت ہے، ایک ایک آیت ایک ہی صورت میں بیسیوں مرتبہ آتی ہے ایک ہی آیت میں ایک ایک لفظ یکے بعد دیگرے دہرایا جاتا ہے
پہلے ہم الفاظ کی تکرار کو بیان کرتے ہیں، اس قسم کی تکرار ہر زبان میں موجود ہے، اور اس کو اصطلاح نحو میں تاکید کہتے ہیں، ہم ہمیشہ بولتے ہیں، دیکھو دیکھو، نہیں نہیں، زید زید، اس دوسرے لفظ سے مقصود صرف کلام پر زور ڈالنا ہوتا ہے قرآن مجید کی جن آیتوں میں اس قسم کی تکرار ہے وہ محض تاکید کے لئے ہے، اس تکرار کی چند مثالیں یہ ہیں،
أولي لك فأولي ثم أولي لك فاولي¤
ہلاکت ہو تمہارے لئے ہلاکت، پھر ہلاکت ہو تمہارے لئے پھر ہلاکت،
كلا سوف تعلمون ثم كلا سوف تعلمون¤
ہرگز نہیں تم عنقریب جان لو گے، پھر ہرگز نہیں تم عنقریب جان لو گے
عربی اشعار میں بھی اس قسم کی تکرار کی بیسیوں مثالیں ملتی ہیں، خنساء کہتی ہے
أردت لنفسي بعض الأمور
فاولي لنفسي أولي لها
میں نے اپنے لیے بعض چیزوں کا ارادہ کیا
تو ہلاکت ہو میرے نفس کے لیے ہلاکت
فراء نے اس قسم کی تاکید کی مثالیں بہت سی پیش کی ہیں، جنکو ہم غرر درر سے نقل کرتے ہیں

کائن وکم عندی لھم من صنیعہ
ایادی ثنوھا علی واوجبوا
ان لوگوں کے کتنے اور کتنے احسان ہم پر ہیں
ایسے احسانات جنکو دوبارہ انہوں نے کیے
دیکھو اس مصرع میں الفاظ کی کتنی تکرار ہے
کم نعمة کانت لکم کم کم وکم
کتنے تمہارے احسانات ہیں کتنے کتنے اور کتنے
ایک عربی شاعر کہتا ہے
نعق الغراب لبنی عدوة
کم کم وکم لغراق لبنی تنعق
کوے نے صبح کو لبنی کے فراق،آواز دی
اے کوا تو لبنی کے فراق کی کتنی کتنی اور کتنی آواز دیگا
حاصل یہ ہے کہ اس قسم کے تاکیدی الفاظ کی تکرار عربی زبان میں کثرت سے ہےاور قرآن مجید میں بھی یہ اسلوب جا بجا استعمال کیا گیا گے
اب صرف ایک بات بیان کرنی اور رہ گئی،قرآن مجید کے ایک ہی سورہ میں ایک ایک آیت کی تکرار بار بار کی جاتی ہے،سورہ رحمن میں فبای الا ٕ ربکما تکذبان اکیس مرتبہ ایک ایک آیت کے بعد آیا ہے، سورہ مرسلات میں ویل یو مئذ للمکذبین ایک دو آیت کے بعد گیارہ مرتبہ ہے،سورہ قمر میں بھی اسی قسم کی تکرار ہے
اسکا جواب مختلف پہلووں سے دیا جا سکتا ہے
(١)قرآن مجید میں مؤثر اسلوب ہر جگہ اختیار کیے گئے ہیں، جب ہمارا مقصود یہ ہوتا ہے کہ مخاطب کو ہر طرح سےمتاثر کردیں تو ہم ایک ایک جملے کو بار بار کہتے ہیں اور مخاطب پر اسکا اثر پڑتا ہے، مثلاََ ایک شخص پر تم نے کثرت سے احسانات کیے، وہ اپنے طرز عمل سے ان احسانات کا انکار کرتا ہےتو تم اسکو اسطرح سمجھاتے ہو، تم ہمارے کن کن احسانات کا انکار کرو گے، کیا ہم نے تم پر احسان نہیں کیاکہ تمکو رہنے کو گھر دیا، کیا یہ احسان نہیں کیا کہ تم کو روپے دے دیے، یہ احسان نہیں کیا کہ تم کو پڑھایا

قرآن مجید میں فباى الآء ربكما تكذبان کی تکرار بھی اسی قسم کی ہی، دیکھو
وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ•جَنَّتَانِ•فَبِأَيِّ آلاء رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ•ذَوَاتَا أَفْنَانٍ•فَبِأَيِّ آلاء رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ•فِيهِمَا عَيْنَانِ تَجْرِيَانِ•فَبِأَيِّ آلاء رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ•فِيهِمَا مِن كُلِّ فَاكِهَةٍ زَوْجَانِ•فَبِأَيِّ آلاء رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ•

جو اپنے خدا سے ڈرا اسکو دو جنتیں ملیں گی، تم اپنے خدا کی کن کن نعمتوں کا انکار کرو گے ، ان جنتوں میں ہری شاخیں ہوں گی، تم اپنے خدا کی کن کن نعمتوں کا انکار کرو گے ، ان میں دو نہریں بھی جاری ہوں گی، تم اپنے خدا کی کن کن نعمتوں کا انکار کرو گے ، ان میں ہر میوہ دو دو قسم کا ہو گا، تم اپنے خدا کی کن کن نعمتوں کا انکار کرو گے .

دوسری جگہ خدا قیامت اور عذاب کا حال بیان فرماتا ہے، اور اسوقت منکرین کی افسوسناک حالت سے عبرت دلاتا ہے۔

كَأَنَّهُ جِمَالَتٌ صُفْرٌ • وَيْلٌ يَوْمَئِذٍ لِلْمُكَذِّبِينَ • هَٰذَا يَوْمُ لَا يَنْطِقُونَ • وَلَا يُؤْذَنُ لَهُمْ فَيَعْتَذِرُونَ • وَيْلٌ يَوْمَئِذٍ لِلْمُكَذِّبِينَ • هَٰذَا يَوْمُ الْفَصْلِ ۖ جَمَعْنَاكُمْ وَالْأَوَّلِينَ • فَإِنْ كَانَ لَكُمْ كَيْدٌ فَكِيدُونِ•وَيْلٌ يَوْمَئِذٍ لِلْمُكَذِّبِينَ•

دوزخ کے شعلے زرد اونٹوں کی طرح ہوں گے، اس دن جھٹلانے والوں پر افسوس ہے ،یہ وہ دن ہے جسمیں وہ نہ بول سکیں گے اور نہ انکو اجازت دی جائیگی کہ عذر کریں، اس دن جھٹلانے والوں پر افسوس ہے ، یہ فیصلہ کا دن ہے تمکو اور تمھارے اسلاف کو جمع کر دیا ہے اگر تم کوئی تدبیر کر سکتے ہو تو مجھ سے کرو، اس دن جھٹلانے والوں پر افسوس ہے ۔

تم دیکھتے ہو کہ یہ طرز تکرار کس قدر مؤثر ہے۔

(٢) مولانا آزاد بلگرامی نے لکھا ہے عربی کے قصائد اور غزلوں میں ردیف نہیں ہوتی اور نہ عرب میں دیگر اصناف سخن مخمس وغیرہ مستعمل ہیں جن میں ایک مصرع بار بار آتا ہے، قرآن مجید نے عرب کے لٹریچر پر چونکہ بہت سے اصناف سخن کا اضافہ کیا ہے، اسلیئے سورۃ رحمن وغیرہ میں جو ایک ہی آیت بار بار آتی ہے اسکو گویا غزل مردف سمجھنا چاہیے جسمیں ایک ہی لفظ ہر شعر کے آخر میں آتا ہے۔

(٣) شریف مرتضی نے تکرار آیات کا بہت اچھا جواب دیا ہے، وہ یہ ہے کہ عرب کے اصناف سخن میں ایک قسم

یہ بھی ہے کہ قصیدے میں ایک ہی مصرع کو بار بار کہنا۔ قرآن مجید گو نثر ہے لیکن اس میں چونکہ عرب کے تمام اصناف کلام موجود ہیں اس لئیے بعض سورتوں میں صنف تکرار بھی استعمال کی گئی ہے، اس صنف کی مثالیں شعرائے عرب کے یہاں بہت ملتی ہیں۔ شریف مرتضی نے چند مثالیں دی ہیں ہم اور بھی بہت سی مثالیں پیش کرتے ہیں۔

مہلہل بن ربیعہ ایک مشہور جاہلی شاعر ہے وہ کلیب کے مثریے میں لکھتا ہے۔

ألا إن ليس عدلا من كليب
اذا خاف المغار من المغير

ألا إن ليس عدلا من كليب
اذا طرد اليتيم من الجزور

ألا إن ليس عدلا من كليب
اذا ما ضيم جيران المضير

ألا إن ليس عدلا من كليب
اذا رجف العضاة من الدبور

ألا إن ليس عدلا من كليب
اذا خرجت مخباة الخدور

ألا إن ليس عدلا من كليب
اذا ما اعلنت نجوى الأمور

ألا إن ليس عدلا من كليب
اذا ضافت رحيبات الصدور

ألا إن ليس عدلا من كليب
اذا ما خارجا را المستجير

ألا إن ليس عدلا من كليب
اذا طالت مقاساة الأمور

ألا إن ليس عدلا من كليب
اذا هبت رياح الزمهرر

اسی طرح سے بیس مرتبہ ایک ہی قصیدہ میں ایک مصرع کو دہراتا گیا ہے، دوسری جگہ مہلہل کہتا ہے

ذهب الصلح او تردوا كليبا
وتحلوا على الحكومة علا

ذهب الصلح او تردوا كليبا
او تذوقوا السيوف ورداونهلا

اسی قصیدہ میں چھ مرتبہ یہی مصرع بار بار آیا ہے، مہلہل کہتا ہے

على ان ليس يوفى من كليب
اذا قودواليك فلا تفاد

علی ان یوفی من کلیب لاعطاء الطرائف والتلاد

اس قصیدہ میں سترہ مرتبہ ایک ہی مصرع کی مہلہل نے تکرار کی ہے، حارث بن عبادہ جاہلی اپنے بیٹے کے مرثیہ میں کہتا ہے

قربا مربط النعامة منّی
لقحت حرب وائل من حیال
قربا مربط النعامة منّی
لیس دون اللقاء من اعتلال

حارث نے اس مرثیہ میں ایک ہی مصرع کو چوالیس بار دہرایا ہے، مہلہل اس مرثیہ کے جواب میں کہتا ہے

قربا مربط المشھّر منّی
کل شقر اواشقر ذی بال
قربا مربط المشھّر منّی
فکلیب اشاب منّی قذالی

اس مرثیہ میں ایک مصرع چالیس دفعہ دہرایا گیا ہے، لیلیٰ خیلیہ جوایر معاویہ کے زمانے کی مشہور شاعرہ عورت ہے، توبہ کے مرثیہ میں کہتی ہے

لنعم الفتی یاتوب کنت اذا القت
صدور العوالی واستشالا لسوافل
ونعم الفتی یاتوب کنت ولم تکن
لتسبق بوما کنت فیة تجادل

اس مرثیہ میں لیلی نے دو چار مصرعون کو لے کر پورے قصیدہ میں ان کو دہراتی گئی ہے عمرہ بنت نعمان اپنے شوہر کے مرثیہ میں کہتی ہے،

وحدثنی اصحابہ ان مالکا
اقام ونادی صحبہ برحیل
وحدثنی اصحابہ ان مالکا
ضروب بنصل السیف غیر نکول

پھر بار بار اس مصرع کو دہراتی چلی گئی ہے

اس قسم کی لفظی اور معنوی تکرار صرف قرآن مجید ہی میں نہیں ہے بلکہ تورات میں بھی موجود ہے حضرت موسی کا قصہ تورات میں مختلف نتائج کے لیے بیسیون جگہ آیا ہے لفظی تکرار بھی کثرت سے ہے، ایک مقام پر ہے

۔اور تم میرےسنتوں کی محافظت کرو اور میرے مقدس سے ڈرو میں خداوند ہوں، اور تم بھان متی اور جادوگروں پر التفات نہ کرو اور انکے طالب نہ ہوکہ ان کے سبب سے ناپاک ہوجاؤگے، میں خداوند تمہارا خدا ہوں، تو اُس کے لیے جس کا سر سپید ہو اٹھ کھڑا ہو اور بوڑھے مرد کو عزت دے اور اپنے خدا سے ڈر میں خداوند تمہارا خدا ہوں، اگر کوئ مسافر تیری زمین پر تیرے ساتھ سکونت کرے تو اس کو مت ستا بلکہ مسافر کو جو تمہارے ساتھ رہتا ہو ایسا جانو جیسے وہ تم میں پیدا ہوا ہے اور ایسا پیار کرو جیسا آپکو کرتا ہے اسلیۓ کہ تم مصر کی زمین پر دیسی تھے میں خداوند تمہارا خدا ہوں، تم انصاف کرنے میں پیمایش کرنے میں تولنے میں ناپنے میں بےانصافی نہ کرو چاہیۓ کہ تمہاری پوری ترازو پورے پیمانے پوری دن سیریان ہوں میں خداوند تمہارا خدا ہوں، جو تم کو زمین مصر سے نکال لایا سو تم میری ساری شریعتوں اور ساری عدالتوں کی حفاظت کرو اور ان پر عمل کرو میں خداوند تمہارا خدا ہوں” (احبار باب ۱۹)
آخر میں ایک بات اور کہنی باقی رہ گئ، دشمان اسلام کا یہ بھی اعتراض ہے کہ *سورۂ الرحمٰن * میں بعض جگہ فبأی آلاء ربکما تکذبان کی تکراد بلکل بے جوڑ معلوم ہوتی ہے مثلا
يُرْسَلُ عَلَيْكُمَا شُوَاظٌ مِنْ نَارٍ وَنُحَاسٌ فَلَا تَنْتَصِرَانِ
فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ
فَإِذَا انْشَقَّتِ السَّمَاءُ فَكَانَتْ وَرْدَةً كَالدِّهَانِ
فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُـمَا تُكَـذِّبَانِ
فَيَوْمَئِذٍ لَّا يُسْاَلُ عَنْ ذَنْبِهٓ ٖ اِنْـسٌ وَّلَا جَآنٌّ
فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُـمَا تُكَـذِّبَانِ
يُعْرَفُ الْمُجْرِمُوْنَ بِسِيْمَاهُـمْ فَيُؤْخَذُ بِالنَّوَاصِىْ وَالْاَقْدَامِ
فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُـمَا تُكَـذِّبَانِ
هٰذِهٖ جَهَنَّـمُ الَّتِىْ يُكَذِّبُ بِـهَا الْمُجْرِمُوْنَ
يَطُوْفُوْنَ بَيْنَـهَا وَبَيْنَ حَـمِيْـمٍ اٰنٍ
فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُـمَا تُكَـذِّبَانِ
تم پر آگ پگھلے ہوۓ تانبے کا شعلہ پہنچا جائیگا اور تم اپنے کو نہ روک سکوگے تم خدا کی کن کن نعمتوں کا انکار کروگے جب آسمان پھٹ جائیگا تو سرخ مثل تیل کے ہوجائیگا تم خدا کی کن کن نعمتوں کا انکار کروگے اس دن کسی انسان و جن کا گناھ نہ پوچھا جائیگا تم خدا کی کن کن نعمتوں کا انکار کروگے گناھگار اپنی علامت سے پہچانے لیے جائیں گے تو سر کے بال اور پاؤں سے پکڑ کر(ڈالے جائیں گے) تم خدا کی کن کن نعمتوں کا انکار کروگے
یہی وہ جھنم ہے جس سے گناھگار انکار کرتے ہیں اس آگ اور گرم پانی کے درمیان طواف کروگے تم خدا کی کن کن نعمتوں کا انکار کروگے
ظاھر ہے کہ ان آیتوں میں جھنم ودوزخ کے حالات بیان کیۓ گۓ ہیں یہ عذاب ہے نعمت نہیں اسلیۓ اس کے بعد یہ کہنا کہ

تم خدا کی کن کن نعمتوں کا انکار کروگے؟ ایک عجیب بات معلوم ہوتی ہے۔
جمہور مفسرین نے اسکا یہ جواب دیا ہے کہ جھنم ودوزخ گو خود نعمت نہیں ہیں لیکن جھنم دوزخ کے حالات بیان کرکے انسان کو عبرت دلانا ایک نعمت ہے لیکن ظاھر ہےکہ یہ جواب کس قدر تاویل بارد ہے، ہمارے نزدیک اسکا اصلی جواب یہ ہے کہ جھنم و دوزخ گو خاص خاص گنہگار افراد کے لیے نعمت نہیں ہے لیکن عام نوع انسان کے لیے خدا کا دوزخ کو پیدا کرنا بھی ایک عظیم الشان نعمت ہے جس کے خوف سے مجرم انسان صالح ہوجاتا ہے،
اس کا دوسرا جواب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس سورہ میں قرآن مجید نے جس صنف کلام کا استعمال کیا ہے اس میں یہ بھی اجازت ہے کہ گو اُس مکرر مصرع کو جو ہر شعر میں آتا ہے دوسرے مصرع سے تعلق نہ ہو (بلکہ پہلے مصرعوں سے تعلق ہوتا ہے) مگر پھر بھی اس کو دہرا دیتے ہیں
مہلہل کے مذکورۂ بالا قصیدہ کے دو شعر سند میں پیش ہیں

قربا مربط المشھر منی
مشہر(گھوڑے کا نام) اصطبل میرے پاس لاؤ۔

لیت شعری و ذاک انعم حال
کاش میں جانتا اور یہ بہتر حالت ہے

قربا مربط المشھر منی
مشہر(گھوڑے کا نام) اصطبل میرے پاس لاؤ۔

من یکون الغداة رھن العوالی
کہ کل کون نیزوں کی نذر ہوگا

دیکھو ان دو شعروں میں پہلے مصرع کو دوسرے مصرع سے تعلق نہیں اور نہ تیسرے مصرع کو چوتھے مصرع سے تعلق ہے مگر پھر بھی مکرر مصرع کو مہلہل نے دونوں شعروں میں دُہرا دیا۔
قرآن مجید میں بھی اس موقع پر گو دوزخ وجھنم کے ذکر کو فابی آلاء ربکما تکذبان سے تعلق نہیں بلکہ اسکے ماقبل اور مابعد سے تعلق ہے مگر پھر بھی اس کو دُہرادیا گیا تاکہ سلسلہ تکرار ٹوٹنے نہ پاۓَ
علوم قرآن دراصل ایک غیر محدود شے ہے ، اس قسم کے نکتے صرف اُس دریا کے چند حباب ہیں۔

Markaz Al Hareem

an educational institute for young female youth

Leave a Reply