دشتِ جنوں

قسط نمبر 07

تحریر حیا حریم

اعمش العمیر  اپنے بچوں کے بدلتے رویے سے بہت پریشان ہوا تھا، اس نے  سجنحلہ کو کہا تھاکہ ان کے کاموں  پر نظر رکھے ، اس نے اسے یقین دہانی کروائی کہ وہ اپنے بچوں کے بدلتے رویوں کی وجوہات جاننے کی کوشش کرے گی ۔

اس نے محسوس کیا تھا کہ مہمان خانے میں پناہ گزین تین لڑکیوں سے اس کے بچے بہت مانوس ہوچکے ہیں  کیوں نہ وہ ان سے جا کر وجہ جانے اور بات کرے

اسی خیال کے تحت وہ  ان کے کمر ے کی طرف بڑھی

دروازے کے قریب پہنچی ہی تھی کہ اندر سے آنے والی آوازوں سے ٹھٹک گئی

سدرہ! میں دیکھ رہی ہوں کہ تم اسلام کی طرف مائل ہونے لگی ہو ،  کل تم شیلف سے قرآن اٹھا کی دیکھ رہی تھی؟

اثمارہ اسے غصے سے گھورتے ہوئے کہہ رہی تھی

اوہ۔۔ سوری ۔۔میں یہ سب بے اختیار کر رہی ہوں ، شاید  ماحول کا اثر ہے ۔ سدرہ نے موزرت خواہانہ لیجے میں کہا ۔

تم یہاں ماحول کا اثر لینے نہیں دینے آئی ہو۔ سمیہ اس پر چیخی

سجنحلہ کے لئے اتنی بات ہی کافی تھی ، وہ تھرتھرا گئی، اتنے مہینوں سے اس نے عیسائی مشنری لڑکیوں کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی تھی اور اسے علم ہی نہیں تھا  

وہ سر پکڑے الٹے قدموں اپنے کمرے میں واپس لوٹی ۔۔۔اسے اب بہت محتاط رہنا تھا ۔

علی الصبح اس نے یہ  گفتگو اعمش العمیر کو سنائی اور وہ بھی پریشان ہوگیا ۔

میں شیخ سے یہ معاملہ ذکر کرتا ہوں ، تاکہ جلد انہیں گرفتار کیا جاسکے ۔  اعمش متفکر سا ہو کرشیخ تک پہنچ گیا ۔

شیخ نے اس کی پوری بات سنی ۔۔ دیکھو۔۔

ہم انہیں مار نہیں سکتے  کیونکہ اس سے صلیبی اور یہودی  فوج ہم پر مزید حملے کرے گی، ہم جان جانے سے نہیں ڈرتے ، لیکن ان عورتوں کی وجہ سے ہمارے جانیں ضائع ہوں یہ گوارا نہیں ۔

پھر ؟ ہمیں کی اقدام کرنا چاہئے ۔ ۔۔

ان خواتین کو  ہمارے مہمان خانے میں بند کردو، ان کا خیال رکھا جائے ، البتہ مسلمانوں سے انہیں ملنے نہ دیا جائے ۔

شیخ کے کہنے پر ان کے قریب موجود سپاہی حرکت میں آگئے ۔

اگلے روز ہی تینوں لڑکیاں اعمش کے گھر سے گرفتار کر لی گئیں ، ان کے سامان سے  معمولی سا اسلحہ اور جند ذرائع مواصلات بھی ملے جو اس بات کی علامت تھی کہ وہ یہاں کے علاوہ بھی اپنے افراد سے رابطے میں تھی ۔

ان سے اسلحہ لے لیاگیا اور انہیں قید خانے میں ڈلوا دیا گیا ۔

علاقے کے بچوں کو اس خبر سے بہت دھچکا پہنچا کہ گزشہ وقت میں جو عورتیں انہیں اپنا گرویدہ کر چکی تھیں وہ ان کے دشمنوں کی صفوں سے آئیں تھیں ،بچے بہت غمزدہ تھے اور انہیں یاد کرتے تھے ۔

(((((((((((((((((((((((((((((((())))))))))))))))))))))))))))

سر جارڈ نے کراؤن کے دروازے پر دستک  دی تو وہ لڑکھڑاتا ہوا دروازے تک آیا کیونکہ وہ زیادہ ہی پی چکا تھا ۔

ہائے ویلکم!   گڈ ایوننگ ۔۔کراؤن نے اسے اندر آنے کا راستہ دیا  تو وہ اندر داخل ہوگیا ،

کہاں گم تھے یار، میں کب سے تمہارا ہی انتظار کر رہا تھا ۔ کراؤن نے شکایتا کہا

کوئی خوش خبری لائے ہو؟

ہاں بہت اہم خبر ہے ۔

سناؤ جلدی۔۔کراؤن نے سگریٹ اس کے سامنے کرتے ہوئے کہا ۔

تل ابیب ائیر پورٹ پر  بہت سا جدید جنگی اسلحہ پہنچ چکا ہے ، مزید برآں یہ کہ  جدید گاڑیاں ، بکتر بند، اور ٹینکس وغیرہ بھی اس میں شامل ہیں اب تمہاری ذمہ داری ہے کہ سب کچھ جلد از جلد یہاں منگواؤں اور اپنے جوانوں کو تربیت دینا شروع کردو ۔

ٹھیک ہے ۔۔ میں کرتا ہوں

مسلمانوں کے مقدس دن آنے والے ہیں اور ان دنوں میں ان کا القدس میں رش لگ جاتا ہے ، اگر ہم نے اس رش کو قابو نہیں کیا تو یہ لوگ القدس پر قابض ہوجائیں گے ، اس لئے ان کے القدس میں جمع ہونے کے دنوں میں ہمیں انہیں منتشر کرنے کے لئے اسلحہ کی اور افراد کی ضرورت رہے گی ۔

کراؤن نے اسلحہ منگوا لیا ، اپنے نوجوانوں کو اس کے سکھانے میں مصروف کردیا ، اور سب ایک نئی مصروفیت کے ساتھ خوش باش  اور ہشاش نظر آنے لگے ۔

مغیرہ کو بھی طبی امداد کی مشقیں مزید دہرانے کا کہا گیا ، یروشلم میں لگائے گئے وہ ایک کیمپ میں دن کا کچھ حصہ مختص کر کے وقت دیا کرتا تھا ۔

وہ اپنے کیمپ میں بیٹھا یروشلم نیوز کی اخبار پڑھ رہا تھا کہ اسے اپنے سامنے کوئی سایہ سا محسوس ہوا، اس نے سر اٹھا کر دیکھا تو ایک صیہونی لڑکی کرسی گھسیٹ کر اس کے بالکل قریب بیٹھ چکی تھی، اتنا کہ اس کے گھٹنے مغیرہ کے گھٹنوں سے ٹکرانے لگے تھے ۔

وہ سمٹ کر پیچھے کو ہونے لگا ۔۔

رکو۔۔۔!! لڑکی بے اختیار بولی ۔

مغیرہ نے حیرت سے اسے دیکھا ۔

کیا نام ہے تمہارا؟ اس نے مغیرہ کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے ساکت لہجے میں کہا ۔

وہ حیران ہوا کہ یہ کیسا مریض ہے جو ڈاکٹر سے نام پوچھ رہا ہے ۔

ڈاکٹر موگی!! اس نے دھیمے سے کہا ۔

میں اینزا۔۔ اس کی آنکھوں میں چمک پیدا ہوئی ۔

کس بیماری کے لئے آئی ہو ۔ مغیرہ نے اسے دیکھا کیونکہ وہ بیمار نہیں لگ رہی تھی

میں بیماری کے لئے نہیں آئی ۔۔ اس نے مسکرا کر کہا ۔

یہ فنڈنگ کیمپ نہیں ہے جہاں تمہیں خیرات ملا کرے ۔ مغیرہ نے بے دلی سے کہا ، کیونکہ اسے ان عورتوں میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی تھی ۔

میں تم سے شادی کرنا چاہتی ہوں ۔ اینزا نے بلا تمہید اپنی بات کہہ ڈالی ۔

شادی!!۔۔۔ وہ زیر لب بڑبڑایا ۔

تم شاید نفسیاتی علاج کے لئے آئی ہو ۔ مغیرہ نے کرسی سے اٹھتے ہوئے کہا ۔

اس نے مغیرہ کے سامنے اپنے ہاتھ جوڑ دئے ۔۔۔دیکھو تمہیں جیسس کا واسطہ ہے ، مجھ سے شادی کرلو ۔ اس کے لہجے میں التجا تھی

تم مجھ سے شادی کیوں کرنا چاہتی ہو ۔ مغیرہ نے تفکر سے کہا

کیونکہ تم مجھے اچھے لگتے ہو ، ایک عقلمند انسان ہو ۔۔ میرے دل کو بھائے ہو  ۔ اس نے کہا

میری تم سے شادی نہیں ہوسکتی ۔ مغیرہ نے یک دم کہا ۔

کیوں ؟؟ لڑکی کی آواز میں درد تھا

کیونکہ میں ۔۔۔۔ ایک دم مغیرہ رکا

یہ کیا حماقت کرنے لگا تھا  میں اف۔۔ وہ گھبرا گیا، اگر اس کے منہ سے نکل جاتا

کیوں نہیں ہوسکتی ، مجھ میں کیا کمی ہے ، میں خوبصورت بھی ہوں  ، تعلیم یافتہ بھی ہوں اور تم سے محبت بھی کرتی ہوں ۔ وہ جلدی جلدی بولی

لیکن میں تم سے محبت نہیں کرتا ۔ مغیرہ نے فورا کہا اور اپنی چابی اٹھا کر کیمپ کے دروازے کی طرف بڑھ گیا

سنو۔۔ رکو !!  اس نے اسے آواز دی مگر وہ ان سنی کر کے چلا گیا ۔

اینزا کے چہرے پر بے بسی کا رنگ آگیا ، البتہ وہ اس کے ایک جملے میں ضرور اٹک گئی جو وہ کہتے کہتے رک گیا تھا ۔

کیونکہ ۔۔۔ کیونکہ میں ۔۔۔۔ کیونکہ میں ۔۔وہ بار بار سوچتی چلی گئی ،

کیونکہ وہ ۔۔ کیا ہے ؟ کون ہے ؟  وہ حیران تھی ۔

اگر اسے مجھ سے محبت نہیں تھی تو آرام سے بھی کہہ سکتا تھا ۔ پرپوزل کو ایسے گھبرا کر ریجیکٹ کیوں کیا اس نے ؟

وہ حیران سے سوچتی رہی ۔

((((((((((((((((((((((((((())))))))))))))))))))))))))))

ماہ رمضان آنے میں دو مہینے باقی تھے  ، مسلمانوں کے مقدس دنوں میں فلسطین کو تہس نہس کرنے کی  تیاریاں شروع ہوچکی تھیں ۔

اس سلسلے میں ایک اہم میٹنگ بلائی گئی تھی ، جس میں فلورا سمیت دیگر تمام اہم افراد بھی شامل تھے ۔

کراؤن کہہ رہا تھا کہ رمضان کا مہینہ مسلمانوں کو  وحدت  عطا کرے گا  اس  میں وہ اپنے خدا کے بہت قریب ہوتے ہیں ، القدس میں جمع ہوتے ہیں ، ان کا اجتماع خطرناک ہے ، جس دن ہم نے انہیں وحدت کے مواقع دے دئے ، وہ دن ہماری تباہی کے ہوں گے ،

بالکل ۔۔ آپ کی بات بجا ہے ۔

اس لئے ہم چاہتے ہیں کہ آپ سب اپنی اپبی تجاویز دیں  کہ ہمیں اس مہینے میں ان کے اجتماع کو کیسے روکنا ہوگا ۔

سر!! القدس کے راستوں پر سختی کر دی جائے ، مزاحمت کرنے والوں کو گرفتار یا جان سے مار دیا جائے ۔

ویسے بھی ان کی دو لاشیں گریں گی تو یہ سب اس کی فکر میں گھلنے لگیں گے ۔  کسی نے کہا  تو قہقہ بلند ہوا ۔

مختلف آوازیں اٹھ رہی تھیں ۔۔کوئی بمباری کا کہہ رہا تھا ، کوئی راستے بند کرنے کا ، کوئی گھروں میں گھس کر بے دخل  کرنے کا ۔۔الغرض سب کی اپنی اپنی تجاویز تھیں ۔

فلورا کے چہرے پر نا چاہتے ہوئے بھی ناگواری کی اثرات آرہے تھے ، وہ مسلمانوں اور القدس کی پامالی کے منصوبے سننے سے شدید غصے کی کیفیت میں آرہا تھا ۔

اس کی اس کیفیت کو جارڈ نے محسوس کر لیا  ۔۔ سر ایم کے  فلورا !! اس نے اسے ایک دم پکارا ۔

ہاں ۔۔جی ۔۔وہ چونکا

تم نے کوئی تجویز نہیں دی ۔۔ اس نے اسے بغور دیکھا گویا جانچ رہا ہو ۔

نو سر ۔۔ اٹس اوکے۔۔ آپ سب ٹھیک کہہ رہے ۔ اس نے  اپنی پیشانی سے پسینہ صاف کیا ۔

جارڈ کا ماتھا ٹھنکا ۔۔ اٹس اوکے ۔ اس نے سر ہلایا ۔

میٹنگ ختم ہوئی تو سب نے اپنے اپنے کمروں کی راہ لی ، جبکہ فلورا اپنے کمرے میں جانے کے بجائے ، مغیرہ کی کمرے کی طرف بڑھ گیا ۔

اس نے دروازہ  بجایا تو مغیرہ نے اٹھ کر فورا کھول دیا ۔

خیریت انکل اس وقتَ۔!!  اس نے فلورا کی گھبرائی ہوئی حالت دیکھی  تو پریشان ہوگیا ۔

خیریت نہیں ہے بیٹا ۔۔  فلسطین کے حالات بہت جلد مزید خراب ہونے والے ہیں ، مکمل جنگ گی صورتحال بن جائے گی ۔

اوہ!! مغیرہ کی آواز ابھری

کسی طرح رویفع بھائی کو اطلاع کردیتے ہیں  تاکہ وہ مسلمانوں کے لئے محفوظ مقام  بنا لیں ۔

غدار کہیں کا ۔۔۔ جارڈ نے غصے سے دانت پیسے ، کیونکہ وہ میٹنگ کے بعد فلورا کا پیچھا کرتے ہوئے یہاں تک آگیا تھا ، جس کا فلورا کو ادراک نہیں ہوا تھا ۔

جارڈ نے دروازے سے دونوں کی گفتگو بھی سن لی تھی ۔

یکایک زور دار دھکے سے دروازہ کھلا  اور جارڈ سمیت پانچ سپاہی اندر بڑھے جنہوں نے فورا مغیرہ اور فلورا پر اپنی گرفت مضبوط کر لی ۔

فلورا !!! ہم تم سے قطعا یہ امید نہیں تھی کہ تم مسلمانوں کی حمایت کرو گے ۔

جارڈ کے لہجے میں سانپ کی سی پھنکار تھی ۔

جس مذہب کا کلمہ پڑھ چکا ہوں اس کی حمایت کرنا میری  غیرت کا تقاضہ ہے جارڈ !! فلورا نے بے خوفی سے کہا ۔

لے چلو انہیں ۔۔۔ سبق  سکھاتا ہوں میں ۔جارڈ چیخا ۔

دونوں نے ایک دوسر ے کو مسکرا کر دیکگا، ایمان کے امتحان کا اور القدس کے لئے قربانی دینے کا اصل وقت تو ابھی آیا تھا ۔ سپاہی دونوں کو لے جا کر ایک قید خانے میں بند کر چکے تھے ۔۔۔جاری ہے

Markaz Al Hareem

an educational institute for young female youth

This Post Has One Comment

  1. انعم۔ارسلان

    میں کیا بیان کروں۔ کتنا درد ہے اس ناول میں۔۔۔ شاید پہلی بار القدس کا درد محسوس کیا ورنہ ہم بھی سویے پڑے تھے

Leave a Reply