ام عروہ (ریاض۔سعودی عرب)

1965
کی جنگ میں بھارت نے پاکستان پر جدید ہتھیاروں سے لیس ہو کر 3 اطراف سے بزدلانہ حملہ کیا مگر پاکستانی افواج اور عوام نے ایمانی جوش و جذبہ کے ساتھ ملک کے چپہ چپہ کی حفاظت کی اور بھارت کے حملے کو ناکام بنادیا جس کے زخم وہ آج بھی محسوس کررہا ہے۔ بقول علامہ اقبال رحمہ اللہ
یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندےجنھیں تونے بخشا ہے ذوق خدائیدو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریاسمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
اب جب کہ پاکستان الحمدللہ ایک جوہری قوت بن گیا مکار دشمن کبھی وطن عزیز کی طرف میلی آنکھ سے نہیں دیکھے گا۔ جس قوم میں میجر عزیز بھٹی شہید جیسے وطن پر جان نثار کرنے والے ہوں اسے کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی۔ جس قوم کے فوجی جانباز اپنے سینوں پر بم باندھ کر دشمن کے ٹینکوں کے نیچے لیٹ کر انھیں تباہ کرتے ہوں اس قوم کو شکست سے ہم کنار کرنا لوہے کے چنے چبانے کے مترادف ہے۔
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی
1965
اس جنگ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ جذبہ حریت ہی وہ جذبہ ہے جو قوموں کو زندہ اور آزاد رکھتا ہے اور جس قوم میں یہ جذبہ نہ ہو وہ جلد یا بدیر باوجود کثرت اور طاقت کے غلامی کا شکار ہوجاتی ہے اور جس قوم کے اندر یہ جذبہ ہو وہ بظاہر ہاری ہوئی جنگ بھی جیت جاتی ہے۔ بقول اصغر سودائی
تجھ میں ہے خالد کا لہوتجھ میں ہے طارق کی نمو

زندہ قومیں خوشی مناتے ہوئے اپنے نصب العین اور مقاصد کا از سر نو تعین کرتی ہیں۔ ہمیں بھی دیکھنا ہے کہ ہم اپنی منزل سے کتنے دور ہیں کہ یہ وطن ہم نے اسلام کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے لیا تھا۔ ہم میں سے ہر فرد کی یہ ذمہ داری ہے کہ اس نظریے کی حفاظت کے لئے اپنا کردار ادا کرے۔ ملک میں موجود دہشت گردی اور عصبیت کو ختم کرنے کے لئے میدان عمل میں نکلے۔ اسلام کو اپنی زندگی میں لے کر آئے اور کفر کی غلامی سے نکلنے پر راضی ہو۔ ہماری آج کی جدوجہد سے ہی ہماری منزل قریب سے قریب تر ہوتی چلی جائے گی۔ ان شاء اللہ
شب گریزاں ہوگی آخر جلوہ خورشید سےیہ چمن معمور ہوگا نغمہ توحید سے