دشتِ جنوں

تحریر : حیا حریم

آخری قسط

مغیرہ   اور عبداللہ سخت ترین قید میں تھے ، دونوں کو الگ الگ قید خانوں میں بند کردیا گیا تھا ،  ان کے لئے یہ مشکل ترین دن تھے ، انہیں مختلف سزائیں دی جارہی تھیں اور مسلسل یہ اگلوانے کی کوشش کی جاتی   کہ وہ آخر کس کے ایماء پر یہ کام کر رہے ہیں ۔

صیہونی طاقتوں کے لئے یہ بہت  پریشان کن مرحلہ تھا کہ فلورا جیسا بندہ بھی ان سے غداری کرچکا تھا، جس کے پاس ان کے کئی راز تھے ، ہر شخص کے دل میں ان دونوں کے لئے نفرت تھے، قید خانے کے تمام سپاہی انہیں آتے جاتے بری نظروں سے دیکھتے تھے ۔

انہیں دی جانے والی سزاؤں میں گھنٹوں تک انہیں الٹا  لٹکایا جاتا، بجلی کے تاروں سے کرنٹ دیا جاتا ، بھوکا پیاسا باندھ دیا جاتا اور پھر لووہے گرم کر کے ضربیں لگائی جاتیں ۔

ان کے منہ سے شدتِ  تکلیف میں بھی اللہ اللہ کی صدائیں نکلتی تھیں ۔

سنو ! اس کیمپ میں جو ڈاکٹر موگی تھا وہ نظر نہیں آتا آج کل

اینزا کچھ روز بعد کیمپ میں آئی اور مغیرہ کو نہ پاکر اس نے سوال کیا

وہ غدار تھا۔۔اسے گرفتار کر لیا گیا ہے ۔ ایک صلیبی نے بتایا

اوہ!! واٹ۔۔۔۔۔ اینزا کے دماغ میں گھنٹیاں بجنے لگی ۔

غدار۔۔۔!! اتنا اچھا انسان غدار کیسے ہوسکتا ہے؟ اسے اپنے کانوں پر یقین نہ آیا ۔

کیا مسلمان ایسے ہوتے ہیں ۔۔۔۔ اگر یہی مسلمانیت ہے تو یہ غداری تو ہر گز نہیں ہوئی ، اتنے اچھے اوصاف کا انسان بھلا ایسا کیسے کرسکتا ہے؟

وہ بے حد الجھی ہوئی تھی ۔

اسے کسی طرح مغیرہ تک پہنچنا تھا ، لیکن ان کی قید بہت سخت تھی اور وہاں ہر کسی کو رسائی نہیں تھی ۔

کچھ سوچ بچار کے بعد اس نے جارڈ سے ملنے کا سوچا اور اس کے آفس پہنچ گئی ۔

وہ  عیسائیت کے مشنری نظم سے مکمل واقف تھی ، سو اس نے جارڈ کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے مشنری کاموں کے لئے کچھ جیلوں کا دورہ کرنا چاہتی ہے ، جس سے اسے پنے مشن کو مزید وسعت دینے اور پھیلانے میں مدد ملے گی ۔

اس کی کچھ حیل حجت کے بعد ہی جارڈ نے اسے اجازت دے دی ۔

وہ قید خانے کے مختلف قیدیوں سے ملنے لگی ، ان سے گفتگو کرتی ، اپنے سوالات کے جوابات لیتی ۔۔اس نے مسلمان قیدیوں میں  بے خوفی اور اطمینان دیکھا تھا ۔

کچھ ایسے بھی تھے جو عمر بھر قید کو تیار تھے مگر ایمان کا سودا نہیں کرسکتے تھے

کچھ اپنی زندگیاں بخوشی قید و بند میں گزار نا چاہتے تھے کیونکہ ان کا ایمان تھا کہ اس کے بدلے انہیں ابدی جنتوں کی نعمتیں ملیں گی

وہ اس نتیجے پر پہنچی تھی کہ مسلمان قوم کے جیتنے کی یہی وجہ ہے کہ وہ بے خوف ہیں اور ان کا اس کے بعد کی کسی ان دیکھی ذات پر ایمان و ایقان اتنا کامل تھا  کہ انہیں یہ سب آزمائشیں اور مشکلات بہت عارضی لگتی تھیں ۔

یہ سب قیدی تو ایک بہانہ تھے ، اصل تو اسے مغیرہ کی تلاش تھی، جو کہ اسے ابھی تک نہیں ملا تھا ۔

بہت سی کوشش کے بعد آخر کار اس نے مغیرہ کا سراغ پا لیا تھا ،سو ایک روز وہ اس تک پہنچی ، اس کی قید انتہائی سخت پہرے میں رکھی گئی تھی ۔

وہ پہلے پہل تو اسے پہچان ہی نہ سکی ۔۔ اس کا جسم نششانات سے سرخ و سیاہ ہورہا تھا، چہرے پر نقاہت کے آثار تھے ۔

اس کے بازو کمر پر بندھے ہوئے تھے ، وہ گردن جھکائے  کہنی پر سر رکھے عربی میں مدہم آواز سے کچھ پڑھے جارہا تھا ۔

ڈاکٹر موگی!! !! وہ اسے دیکھ کر چیخی

مغیرہ نے آنکھیں اوپر اٹھائیں ۔۔۔۔

اینزا اس کے بالکل قریب آچکی تھی ۔۔ اس نے اس کے بازو اور کمر پر لپٹی رسی کھولی 

یہ ۔۔۔یہ کیا ہوچکا ہے ؟ ایک قابل ڈاکٹر کے ساتھ یہ سلوک کرنا انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے ۔ وہ تیز تیز بول رہی تھی

یہ۔۔۔ ٖڈاکٹر کی نہیں ۔۔ایک مسلمان کے حق کی ۔۔۔بات ہے ۔۔ مغیرہ نےدھیمے سے کہا ۔

ہاں ۔۔تو۔۔مسلمان بھی انسان ہیں ، ان کےساتھ اتنا ناروا سلوک نہیں ہونا چاہئے ۔ اس کی آواز میں درد تھا ۔

یہ بات تم اس لئے کہہ رہی ہو کہ تمہارے دل میں رحم کا جذبہ ہے ، ورنہ سب سمجھتے ہیں کہ مسلمان صرف مرنے اور پٹنے کے لئے بنا ہے ۔ مغیرہ نے کہا ۔

میں آپ کو یوں مرنے نہیں دے سکتی ۔۔۔ اینزا نے تاسف سے کہا ۔

جسے تم موت کہہ رہی ہو ،وہ ۔۔۔ہمارے لئے سعادت ہوتی ہے ۔ مغیرہ ہلکے سے مسکرایا ۔

نہیں ڈاکٹر۔۔۔ تم ایک محسن ہو ، میں تمہاری مدد کروں گی ۔ اس کے لہجے سے اس کا عزم جھلک رہا تھا ۔

مغیرہ نے جواب میں کچھ کہے بنا ہی آنکھیں بند کر کے دیوار سے سہارا لیا، کیونکہ اس کا رسیوں میں جکڑا بدن آج دو دن بعد آزاد ہوا تھا تو اسے سکون محسوس ہونے لگا ۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

اینزا  گاہے بگاہے اس کے پاس آنے لگی تھی، اور اس کی کسی نہ کسی طرح  مدد کیا کرتی تھی ۔

اینزا۔۔!! تم ایک اچھی لڑکی ہو ، اس دن میں نے تمہیں ڈانٹ دیا تھا اس پر مجھے معاف کردو ۔ مغیرہ نے ایک روز اسے کہا ۔

ڈاکٹر!! ایسے نہیں کہتے ، میں جو کر رہی ہوں وہ انسانیت سے محبت کی بنا پر ہی نہیں بلکہ آپ سے محبت کی وجہ سے بھی کر رہی ہوں ۔ اس کی آنکھوں میں یہ کہتےہوئے چمک آگئی ۔

تم میرے دوست فلورا کی خبر لا سکتی ہو؟

اوہ۔۔۔وہ سر ایم کے ون فلورا؟؟ وہ تمہارے دوست ہیں ۔۔۔۔ اینزا نے حیرت سے کہا ۔

ہاں ۔۔۔ وہ میرا محسن ہے ۔

وہ تو تم سے عقبی جانب کے  قید خانے میں ہیں اور ان کا حال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بہت برا ہے ۔ وہ کہتے ہوئے رکی

اوہ۔۔ مغیرہ فکرمند ہوا۔۔۔ میرا دوست۔۔۔ میرا محسن ۔۔مولا ان پر رحم کرنا ۔ اس کی آواز بھرا گئی

مجھے تم مسلمانوں کی یہی بات اچھی لگتی ہے کہ تم  مشکل میں بھی اپنے بجائے دوسروں کی فکر کرتے ہو۔ اینزا بولی

یہ تو ہمارے نبی کی تعلیم ہے۔ ،مغیرہ نے جوابا کہا ۔

تم فلورا سر تک ممیرا سلام پہنچا دینا اور انہیں بتانا کہ میں ٹھیک ہوں ۔۔۔ انہیں بتانا کہ میں ان کے حوصلے سے سبق سیکھتا ہوں ، اگر ۔۔۔وہ حوصلہ ہار گئے تو میں بھی ٹوٹ جاوں گا ۔۔اس لئے وہ استقامت سے رہیں گے ۔  مغیرہ بے خودی میں بولا جارہا تھا ۔

ریلیکس!!  ریلیکس!! میں تمہارے ساتھ ہوں ۔۔۔ اور اب ان کے بھی ساتھ ہوں ۔ اینزا نے اسے تسلی دی ۔

ان پر تشدد اورمظالم دن بدن بڑھتے جارہے تھے ، اینزا سے یہ سب برداشت کرنا بہت مشکل ہورہا تھا ، اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ انہیں یہاں سے کسی طرح نکال کر لے جائے گی

اگر چہ وہ یہ جانتی تھی کہ یہاں سے نکلنے کے بعد ان کی تلاش میں پورا فلسطین تہس نہس کردیا جائے گا ، لیکن اسے اس کی پرواہ نہیں تھی ، وہ صرف مغیرہ پر اپنی محبت کا حق پورا کرنا چاہتی تھی  ، وہ اسے قید میں مرنے کے بجائے آزادی میں مرنے کو چھوڑنا چاہتی تھی ۔

کتنی عجیب زندگی تھی فلسطین کی ۔۔۔۔۔آزاد فضا ہو یا قید ۔۔ ظلما موت ان کے مقدر میں لکھی گئی تھی ۔

ایک رات وہ پہرے پر موجود سپاہیوں کو چقمہ دے کر مغیرہ اور فلورا کو وہاں سے باہر نکال لانے میں کامیاب ہوگئی تھی ،

دونوں قید خانے سے نکل گئے تھے ، البتہ پروشلم کا احاطہ ان کے لئے کسی طور بھی محفوظ نہیں تھا ۔

ڈاکٹر موگی۔۔۔ میں نہیں جانتی کہ اس کے بعد کہاں جانا ہے ، ہاں جہاں بھی جانا ہوگا میں تم لوگوں کے ساتھ رہوں گی کیونکہ صبح تم لوگوں کو نہ پاکر یہاں قیامت آجائے گی اور سب جان جائیں گے کہ یہ میرا کام ہے اس لئے مجھے قید کر لیا جائے گا اور میں بھی آزادی سے مرنے کو ترجیح دوں گی ۔

مجھے مسلمانوں کی ایک وادی کا علم ہے ۔۔۔ وہاں ہی ہم جا سکتے ہیں ۔

یہ ان کے لئے مشکل ترین وقت تھا۔۔ وہ جنگلوں ۔۔۔پہاڑوں  میں چھپتے چھپاتے منزل کی طرف بڑھ رہے تھے، وہ ویرانوں میں بھٹک چکے تھے۔۔۔ آسمان پر گونجتے طیاروں اور کیمروں سے خود کو محفوظ رکھنا ان کے لئے ایک اور آزمائش تھی، طیاروں کی گونج بتا رہی تھی کہ یروشلم میں ان کی گم شدگی کی خبرپھیل چکی ہے ۔

وہ کئی دنوں تک ویرانوں میں بھٹکتے رہے ۔ ۔۔ اینزا کا رنگ بدل چکا تھا ، مغیرہ کی حالت غیر ہو رہی تھی، عبداللہ فلورا کی گویا آخری سانسیں چل رہی تھی، وہ پہلے کی تشد د کی وجہ سے ابتر حالت میں تھا ۔

فلورا !! میرے محسن ۔۔۔ تمہیں ہمارا ساتھ دینا ہے ۔۔ ابھی نہیں تھکنا ، ہماری منزل بہت قریب ہے ۔

ہاں مغیرہ ۔۔ مجھے اس پر اطمینان ہے کہ میں اس زمین پر مروں گا جہاں مجھ سے پہلے کئی لوگ اپنا لہو بہا چکے ہیں ، فرشتے یہاں والوں کو اٹھا کر سیدھا جنت میں ہی جاتے ہیں ، شاید یہ نسبت میری لاج رکھ لے ۔

ایسی باتیں نہیں کریں ۔۔۔ رب آپ کو لمبی عمر دے ۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭8

یروشلم کے اردگرد کی تمام بستیوں میں قیامت سے پہلے کی قیامت  ڈھا دی گئی  تھی ، یہودی فوج مسلمانوں کی بستیوں میں گھس گئی تھی، ان کے گھر وں میں زبردستی گھس کر تلاشی لی جارہی تھی، مزاحمت کرنے والوں کو زدو کوب کیا جانے لگا،

بچوں کے اسکول، تاجروں کی دکانیں ، عورتوں کے گھر غرضیکہ کوئی جگہ بھی مامون نہیں تھی، ہر جگہ فوجی چھاپے ڈالے جارہے تھے، فلسطین کے نظام میں پھر سے تعطل پیدا ہوچکا تھا ۔

شیخ ہشام الرواحہ مرکز کے تمام نوجوانوں سے اس اچانک پیدا ہوجانے والی صورتحال کی بابت مشورہ کر رہے تھے ، اسرائیلی جارحیت کو کس طرح سے روکا جائے آخر؟

مسلمانوں کی حفاظت کے لئے کیا اقدامات کئے جائیں ؟؟ ان سوالوں پر گفتگو ہو ہی رہی تھی کہ ایک پہرے دارنے آکر مداخلت کی

امیر المؤمنین! آپ کا اقبال بلند ہو۔۔!! باہر کچھ پرسان حال لوگ آئے ہیں اور آپ کا نام لے رہے ہیں ۔

شیخ متذبذب سے ہوئے انہوں نے ایک نظر شوری کے ارکان پر ڈالی اور کچھ سوچ کر اٹھ کھڑے ہوئے، ان کےساتھ ہی رویفع اور دیگر لوگ بھی اٹھ کھڑے ہوئے اور باہر کی طرف دوڑے

دروازے کے پاس ابتر،دھول مٹی میں اٹا ایک چہرہ  رویفع کو دیکھتے ہی دمک اٹھا ۔

مغیرہ تم ۔۔۔۔!! رویفع جست لگا کت اس کے قریب پہنچ گیا اور دونوں بغل گیر ہوگئے ۔

مبارک ہو ۔۔تم کفرستان سے سلامت لوٹے ہو۔۔۔ رویفع آنسووں کے ساتھ کہہ رہا تھا ۔

دونوں ایک دوسرے کے ساتھ لگے رو رہے تھے، شیخ ہشام الرواحہ کافی دیر تک یہ منظر دیکھتے رہے ، پھر قریب آکر ان کے کندھوں پر ہاتھ رکھا اور پیار سے تھپتھپایا ۔

وہ جان گئے تھے کہ یہ لڑکا مغیرہ ہے جس کا رویفع اکثر تذکرہ کرتا ہے ۔

رویفع۔۔میں آپ تک پہنچ گیا ہو، ہاںایک محسن کی قربانی دے آیا ہوں ۔

کیا مطلب۔۔۔ رویفع چونکا ۔

مغیرہ کچھ قدم پیچھے ہٹا ۔۔۔ سہمی ، گرد و مٹی سے اٹے بالوں والوں ایک لڑکی کھڑی تھی اور اس سے کچھ فاصلے پر زمیں پر ایک وجود ڈھیر تھا ۔

رویفع اور ساتھی دوڑ کت اس کے پاس گئے ۔۔۔

عبداللہ فلورا۔۔۔ وہ چیخا ۔۔

اس کا وجود ٹھنڈا تھا، جسم پر کئی جگہ نشان تھے، ساکت جسم ، ہونٹوں پر تبسم ۔۔۔جیسے کئی دنوں کا تھکا ہارا  وجود۔۔اپنا گھر قریب دیکھ کر وہیں مٹی میں لیٹ گیا ہو ۔

مرکز سے ایک میل کے فاصلے پر پہنچ کر فلورا زندگی کی ڈور چھوڑ گیا تھا ۔

ہرآنکھ اشک بار تھی۔۔ فضا میں نعرہ توحید گونج رہا تھا ۔

اس کے جانے پر آنکھیں اشکبار تھیں ۔۔۔یا اس کی آزاد فضا میں موت پر نعرے بلند ہورہے تھے ۔کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔

ہاں فلسطین کی زمیں پر جان کا نذرانہ دینے والے نوجوانوں کی فہرست میں ایک اور کا اضافہ ہوگیا تھا ۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

القدس کے اطراف میں ہنگامی کاروائیاں جاری تھیں،  صلیبی وحشیوں کی مانند مسلمانوں کے گھروں پر ٹوٹ پڑتے تھے ، شیخ ہشام الرواحہ کی نگرانی میں ایک قافلہ ترتیب دیا گیا تھا ، جس نے رات کے وقت یہودی فوجیوں پر جوابی کاروائی کرنی تھی ،

مسلمان سپاہیوں نے اپنے معمولی سازوسامان اور ہتھیاروں سے یہودی چھاؤنیوں پر راتوں رات جوابی حملہ کردیا تھا ۔

یہودی اس جوابی حملے کے لئے تیار نہ تھے ، چھاؤنیوں پر پڑتے مارٹر بموں اور گولیوں سے ان کی چیخیں نکل گئیں ۔ خوف و ہراس میں وہ اپنا کئی سامان چھوڑ کر بھاگے ۔۔۔۔۔ ایک طوفان مچ گیا، مسلمانوں کی بربریت کے قصے سنائے جانے لگے ، سوشل میڈیا پر معنے والے یہودیوں کی لاشیں گن گن کر دکھائی جانے لگی  لیکن فلسطینی اس  سے بے نیاز تھے ، انہوں نے کئی یہوی مارے ، کئی میدان سے بھگائے ۔۔۔۔اور یوں القدس کا احاطہ ایک بار پھر گولیوں سے چھلنی ہوا ، البتہ صیہونی وہاں سے جلد بھاگ کھڑے ہوئے ۔

الحمد للہ !!! اللھم لبیک کی صداؤں سے ارض فلسطین ایک بات پھر گونج اٹھی ۔

مسلمانوں کے ہاتھ یہودیوں کا چھوڑا ہوا کافی سارا اسلحہ آگیا۔

اینزا  اسلام قبول کرنے کے بعد مرکز میں ہی رہ  رہی تھی، سو اس نے شیخ سے کہا کہ وہ ان کے ساتھیوں کو جدید اسلحے کا استعمال سکھائے گی ۔  

مسلمانوں کی ایک اور فتح کے بعد مغیرہ اور اینزا کا نکاح بھی کردیا گیا ۔

اینزا نے اپنا اسلامی نام مریم رکھا  اور یوں وہ ان سب کے ساتھ مل کر القدس کی عظمت و سربلندی کے لئے کام کرنے لگی

خدا نے اگر القدس کے محافظ  عبداللہ فلورا کو اپنے پاس بلایا تھا ،تو اس کی جگہ مغیرہ کو اینزا (مریم) کا ساتھ دے دیا تھا

وہ رب کتنا حکیم ہے ، اپنے بندوں اور اپنے گھر کو کبھی لاوارث کر کے نہیں چھوڑتا ۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

دن بیتتے جارہے تھے ، رمضان المبارک شروع ہونے میں دس دن رہتے تھے  اور یہ خبر مغیرہ نے شیخ ہشام کو دے دی تھی کہ رمضان میں القدس ایک بار پھر نرغے میں ہوگا ،درمیان میں مغیرہ اور دلورا کی وجہ سے جو حملہ ہوا اور یہودیوں کا جو نقصان ہوا وہ اس کی تلافی ضرور کریں گے ۔

مسلمان اپنے طور پر چوکنااور تیار تھے ، چھوٹے چھوٹے بچے بھی اپنے ہاتھ اور جیب میں پتھر رکھنے کو جمع کرنے لگے تھے ،  

مریم اور مغیرہ اپنے ساتھیوں کو ہر وقت اسلحہ چلانا اوراپنے دفاع کے طریقے سکھاتے تھے ، یہی تو زندگی تھی فلسطینی مسلمانوں کی ، جس وقت عالمِ اسلام رمضان المبارک  کی آمد کی مبارک بادیں دینے کی تیاری کر رہا تھا، گھروں میں شیرینی ، پکوان ، کپڑے اور عبادتوں کے مصلے تیار ہورہے تھے ، فلسطین میں اسی وقت میں ایک دوسرے سے بچھڑ جانے کے بعد صبر وایقان سے رہنے کی تسلی اور ڈھارس کے وعدے اٹھائے جاتے تھے ۔

رمضان اور عید کے دنوں میں کون کس سے بچھڑ جائے، کون کب کسی گمنام گولی کا نشانہ بن جائے، کون کب کسی عمارت کے ملبے میں دب جائے ۔۔۔کوئی خبر نہیں تھی

یقین تھا تو صرف اس بات کا ۔۔۔۔ کہ سب نے شہید ہوجانا ہے ، سب نے خدا کے حضور ملنا ہے ۔

بس یہی سرخروئی انہیں سرشار کرتی تھی ۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

آج پہلی تروایح تھی ، مسلمانوں کا جھنڈ فلسطین کے تمام شہروں سے القدس میں جمع ہونے لگا تھا ، وہی ہوا جس کا ڈر تھا ، فضا میں آٹھویں رکعت کی تکبیر بلند ہوئی تھی اور عقب سے مسلمانوں پر اندھا دھند فائرنگ کردی گئی تھی ۔

نمازیوں نے اطمینان سے سلام پھیرا ، اور خود کو بچانے کے لئے دروازے کی سمت پتھر، سامان گولیاں جو میسر تھا برساتے چلے گئے

لیکن کفر اپنی پوری تیاری کے ساتھ تھا  تو مسلمان بھی قسم کھائے ہوئے تھے۔

القدس کی زمین جو کچھ دیر پہلے تک غیرت مند پیشانیوں کے سجدوں سے دمک رہی تھی ، وہاں اب ان مقدس جبینوں کا لہو ٹپک رہا تھا ۔

کفر کے نشانے جاری تھے ، کہیں سے کوئی اڑتی ہوئی گولی امیر کارواں شیخ ہشام الرواحہ کے سینے کو چیرتی ہوئی نکل گئی ، فضا میں نعرہ تکبیر بلند ہوا ۔۔۔۔ گولیوں کی گونج میں ہشام الرواحہ اپنی جان کا نذرانہ ارض فلسطین کے القدس کو پیش کر چکے تھے ۔

رویفع نے آگے بڑھ کر ان کی پیشانی کو بوسہ دیا ۔۔۔

لو آج جشنِ چراغاں کی انتہا کردی ہم

تیری خوشی میں اپنا گھر تک جلا دیا ۔

اس کے پاس وقت نہیں تھا کہ وہ ہشام الرواحہ کے شہید بدن کا اعزاز کرے ، کیونکہ اس کے پیچھے کئی اایسے ناتواں وجود کھڑے تھے جن کی حفاظت اس کی ذمہ داری تھی ۔

خدایا ۔۔۔ تیری امانت۔۔ تیرے گھر میں ۔۔۔ تو نے ہی  لے لی ۔۔۔ تیرا شکریہ !! اس نے سر بلند کر کے کہا

اور ہشام الرواحہ کی شہادت کا ایک زور دار نعرہ لگا یا ۔

الشیخ رااااااااحل ۔۔۔۔۔ شیخ چل دئے ۔

شیخ جا چکے تھے، فلسطینیوں کا لہو کھولنے لگا ۔۔۔

عورتیں ، بچے ، نوجوان  سب ہی بے نیاز  بھاگتے ہوئے القدس کے صحن کی طرف بڑھ رہے تھے ۔

کفر حیران تھا ، کہ جتنا شدید حملہ ہوتا ہے ، مسلمان اتنے ہی بے خوف کیوں ہوجاتے ہیں ۔

شیخ کی شہادت کی اطلاع سے مسلمانوں کا گرم لہو اب ابل کر باہر آنے کو بے تاب تھا ، وہ سر بلند بس کفر پر جھپٹے جاتے تھے ۔

کچھ قید ہورہے تھے، کچھ مار رہے تھے، کچھ مر رہے تھے ۔۔۔۔ القدس کے اونچے منار یہ سب دیکھ رہے تھے ۔

وہ اونچے منار جانتے تھے کہ  یہ زمین پر سجا معرکہ ۔۔۔۔آسمان کی بلندیوں میں کتنی وقعت رکھتا ہے

شاید ان اونچے مناروں نے بادلوں کے اوپر ہونے والے اس اعزاز کو جھانک لیا تھا ، جو القدس کے صحن میں گرنے والے اور کٹنے والے ہر وجود کو دیا جاتا ہے ۔

اسی لئے وہ خاموش کھڑے تھے ۔۔۔ اتنا خاموش کہ اب گولیوں کی گونج سے لرزتے تک نہیں تھے ۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

رمضان کے روزے گزرتے جارہے تھے ، عالمی میڈیا پر یلغار تھی ، عام  مسلمان فلسطین کے لئے آواز اٹھانا چاہتے تھے، عالمی استعمار ان کی آوازیں دبا رہا تھا ۔

القدس کے صحن میں لاشیں گر رہی تھیں ۔۔کوئی خوفناک دھماکہ تھا ، جس میں کئی لوگ لپیٹ میں آئے تھے ، مغیرہ کو محسوس ہوا جیسے قیامت آگئی ہے ، دھویں کے بادل تھے ، سامنے کوئی اونچا تخت تھا م جس پر خدا  ئی نور مسکرا رہا تھا ۔۔۔۔

مغیرہ نے اس نور سے لپٹنا چاہا، یکایک اس پر پانی پھینکا گیا ۔۔ دھویں کے بادل  کم ہوئے ۔۔ اس نے دیکھا وہ ایک پتھر کے کنارے ہے ، اس کے دائیں طرف ایک وجود ہے ۔

اس نے بمشکل کروٹ لی ۔۔۔۔ خون میں نہایا رویفع اسے دیکھ کر مسکرایا ۔

اس نے کھسک کی اس کا ہاتھ تھام لیا ۔

ہاتھ تھامتے ہی اس کے گرم وجود میں نرمی آئی ۔۔۔ اور وہ مسکراتے ہوئے آنکھیں موند گیا ۔

گویا اس کی ادھ کھلی آنکھیں کہہ رہی تھیں ” میرے تن سے ابھی زخم نہ گن ، میری آنکھوں میں ابھی نور ہے”

وہ شاید مر گیا تھا۔۔ نہیں اس نے موت پر احسان کیا تھا ۔

اس کے لبوں کی مسکراہٹ گہری ہوگئی ۔۔۔موت بھی کھڑی دیکھتی رہی ۔۔ شہادت جیت گئی، حیاتِ جادوانی نے سبقت لے لی

بجلیاں کوندتی رہیں ۔۔۔ کئی کیمروں کی لائٹیں ان کی تصاویر بناتی رہیں ۔۔

دو دوست ۔۔۔ دو ساتھی ۔۔۔ جن کی تاریخ کوئی نہیں جانتا تھا ۔۔ بس اتنا معلوم تھا ، کہ دھوئیں اور خون کے بادل جب چھٹے تھے تو دونوں نے ایک دوسرے کا ہاتھ تھام رکھا تھا

دونوں کہہ رہے تھے ” ہم جنت میں ساتھ جائیں گے “

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

یہ معرکہ کچھ کم نہیں تھا ، فسلطینیوں نے ہر سال کی طرح اس سال بھی اپنا قیمتی سرمایہ القدس کے لئے لٹادیا تھا ۔

مرکز کے لوگ القدس کے صحن میں جمع تھے ۔۔۔۔ اعمش العمیر کا چھوٹا بیٹا اسود العمیر دوڑتا ہوا آیا تھا ، اس نے القدس کے  صحن میں نظر دوڑائی تو اس کے سب اپنے جاچکے تھے ۔

کہیں اعمش ، کہیں شیخ ہشام ، کہیں مغیرہ  اور رویفع ۔۔۔۔۔۔ سب ہی تو الوداع کہہ گئے تھے ۔

اس نے جھک کر اپنے باپ اعمش کی پیشانی پی بوسہ دیا ۔

اور ان کے بازو میں لٹکی ہوئی بندوق نکالی ۔۔۔

وہ بہت چھوٹا تھا ۔۔۔۔ بندوق اس سے بہت بڑی تھی ۔ لیکن وہ اسے اٹھا چکا تھا ۔

اس کے آنکھوں میں انتقام بھڑک رہا تھا ۔۔

عالمی میڈیا پر اس کی تصاویر گردش کر رہی تھیں  کہ ایک فلسطینی بچے نے بندوق اٹھا رکھی ہے ۔

عالمِ اسلام کو لگ رہا تھا کہ یہ بچہ جذبہء جہاد سے سرشار ہے ۔۔۔ عالمِ کفر کو لگ رہا تھا کہ یہ بچہ دہشت گرد بن چکا ہے

جبکہ وہ دہشت گردی اور جہاد ۔۔دونوں ہی جذبوں سے ناآشنا تھا ۔اس کی آنکھوں میں باپ کا لاشہ تھا

اس کے کانوں میں خوفناک آوازیں تھیں

وہ تو بس ہر اس ہاتھ کو توڑ دینا چاہتا تھا جس نے اسے یتیم کردیا تھا ،

اس کے سامنے عین بہار میں پھول نوچے گئے تھے، کلیاں مسلی گئیں تھیں ، معزز شخصیات بے آبرو کی گئیں تھیں ۔

ہر میڈیا پر اس کی تصویر ہیڈ لائنز کے ساتھ شئیر ہو رہی تھیں

گول میزوں کے گرد گھومتے کیمروں کے سامنے چلتی زبانیں  اس پر گز گز بھر کے تبصرے کر رہی تھی ۔

وہ اسکول جاتا تھا۔۔ وہ کھیلتا کودتا تھا ۔۔۔ پھر بھی اس کا چمن اجاڑ دیا گیا تھا ، تو کیوں نا وہ پھر آتش ہی بن جاتا ،  وہ آگ جو انتقام کے بغیر ٹھنڈی نہیں ہوتی ، وہ انتقام جو پورا ہوئے بنا نہیں رکتا ،۔

آج صلیبیوں اور صیکہونیوں کے دشمنوں میں ایک اور شعلہ صفت مجاہد کا اضافہ ہوگیاتھا۔

عالمی استعمار یہ نہیں جانتا تھا کہ یہ دہشت گرد  س بمباری سے پیدا ہوتے ہیں جو فلسطین میں کی جاتی ہے

فلسطین کی کہانی بالکل الگ ہے ، اس کے ستارے بالکل الٹے چلتے ہیں ۔

وہاں گرنے والے ہر بم سے ایک مجاہد مرتا نہیں ہے ، بلکہ کئی مجاہد پیدا ہوجاتے ہیں ۔

وہاں چلنے والی ہر گولی سے بچے کتابیں چھوڑ کر کلاشنکوفیں اٹھا لیتے ہیں ۔

وہاں ہونے والے ہر حملے سے ،گلی میں کھیلتے بچے آگ و خون کے تیراک بن جاتے ہیں ۔

دنیا دہشت گردی پکارتی رہی ہے ۔۔۔ فلسطین کا دشت کوئی عام دشت نہیں ہے م یہ دشتِ جنوں ہے ۔

یہاں غیرت و وفا کی تاریخ رقم ہوتی رہے گی ،

یہ اقصی کی زمین ہے ۔۔۔ زمین ختم بھی ہوجائے تو  القدس اس زمین پر آسمان کا چاند بن کر چمکے گی ، کہ یہ جنوں کی زمیں کا قصہ ہے ، جو عقل و خرد سے سلجھایا نہیں جاسکتا ۔

ختم شد

Markaz Al Hareem

an educational institute for young female youth

This Post Has 2 Comments

  1. انعم۔ارسلان

    💦💦💦💦💦💦💦💦
    بس اور کچھ نہی۔
    اللہ اکبر
    کوئی اور امت آباد ہے ادھر
    جذبہ ایمانی ہے یا کیا
    جزاک اللہ خیرا کثیرا حیاء جی۔
    کچھ تو آنکھیں کھولیں آپ نے

  2. ڈاکٹر مدیحہ

    💦💦💦💦💦💦💦💦💦💦کاش کہ ہم جاگ جائیں

Leave a Reply