
قسط نمبر 5
تحریر: حیا حریم
مسجد القدس کے صحن میں کراؤن کے لئے شاندار دعوت کا اہتمام کیا گیا تھا، سخت پہرے تھے اور کسی مسلمان کو اس طرف پھٹکنے کی بھی اجازت نہیں تھی ، چاروں جانب صیہونی جھنڈے لہرا رہے تھے ، ایک گھنٹہ بجتے ہی سب لوگ القدس کی طرف جانے لگے ، مغیرہ بھی خاموشی سے بجھے دل کے ساتھ اندر کی طرف چل پڑا
وہ القدس میں پہلی بار داخل ہورہا تھا، اندر داخل ہوتے ہی وہ مبہوت سا ہو کر رہ گیا ،وہ دیکھ رہا تھا کہ مسجد کے ارد گرد مضبوط فصیل قائم تھی، اور مسجد اقصیٰ کی روزِ اول سے جو حدود تھیں وہ آج تک انہی حدود پر قائم ہے ، فصیل میں سے اندر داخل ہونے کے چودہ دروازے تھے، جن میں ست دس استعمال ہو رہے تھے اور بقیہ چار سلطان صلاح الدین ایوبی نے حفاظتی نکتہء نظر کے تحت بند کروا دئے تھے، ، مغیرہ ایک دروازے سے داخل ہوا ۔
نگاہوں کو خیرہ کردینے والا کشادہ صحن ، جس سے قبے، چبوترے، اذان کے منارے، پانی کی سبیلیں ، کنویں ، مدرسے اور محرابی دروازے نمایاں تھے ۔
سب سے نمایاں عمارت چٹان والے گنبد کی تھی ، فی الوقت تمام مدارس ویران پڑے تھے، مغیرہ کو دورِ اسلامی کے مشہور مدارس کے نام معلوم ہوگئے تھے ، اس نے باری باری مدرسہ غازیہ، مدرسہء کریمیہ، مدرسہء باسطیہ، مدرسہء طولونیہ، مدرسہء عثمانیہ کے نام یاد کئے اور حسرت سے ان کی قدیم جگہوں کی طرف دیکھا۔
وہ دھیرے دھیرے چلتا مغربی برآمدے میں آیا ، کسی زمانے میں یہاں بھی مدرسہ ء خاتونیہ نامی درسگاہ تھی، اس حجرے کے باہر ایک قبر دیکھ کر وہ ٹھٹکا ، ارد گرد دیکھا تو ایک صیہونی سپاہی کھڑا تھا ۔
مغیرہ اس کی طرف مڑا۔۔ سر آپ بتا سکتے ہیں کہ یہ کس کی قبرہے ؟
چھوڑو دفع کرو ۔۔ ام یہاں قبریں دیکھنے نہیں آئے ، موجیں کرنے آئے ہیں ۔
سر میں ویسے ہی جاننا چاہ رہا ہوں ۔ مجھے کوئی خاص مقصد نہیں ہے ۔
تم بولتے ہو تو میں بتاتا ہوں ، یہاں مسلم کا ایک بڈھا دفن ہے ، جس کا نام محمد علی ہے ۔ سپاہی نے سگریٹ نیچے پھینکا اور یہ کہہ کر شانِ بے نیازی سے چل پڑا ۔
اوہ اچھا۔۔ مغیرہ کے منہ سے اتنا ہی نکلا ۔۔ سپاہی کچھ دور ہو گیا تو مغیرہ نے حقارت سے اس کا پھینکا ہوا سگریٹ پاؤں کے نیچے مسلا اور خود سے گویا ہوا ۔
تو کیا یہ قبر برصغیر کے مشہور خطیب اور راہ نما مولانا محمد علی جوہر کی ہے ، جنہوں نے آزاد زمین میں دفن ہونے کی آرزو کرتے ہوئے ہندوستان واپس جانے سے انکار کردیا تھا ۔
اس کا دماغ سائیں سائیں کر رہا تھا
آہ!!! کیا معلوم تھا کہ آپ انگریز سے ہندوستان کی آزادی کے لئے جدو جہد کرتے رہیں گے اور گوری چمڑی والا مکار فطرت دشمنِ اسلام، مسلمانوں کے ترکِ جہاد کی بنا پر القدس کو بھی اپنی سرپرستی میں یہودیوں کے حوالے کردے گا ، اس کی آنکھوں سے دو آنسو لڑھک کر اس کی گال پر بہہ گئے ۔
وہ صحن میں ہی کھڑا تھا، خوبصورت قبے، تدریس، ذکر و عبادت کے لئے جائے خلوت، یا تاریخی یادگاروں کے طور پت تعمیر شدہ مسجد اقصی کے صحن کی خوبصورتی آج بھی رونق میں اضافہ کئے دے رہی تھی
اسے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے یہ قبے تراشیدہ موتیوں کی مانند بکھرے ہوئے ہیں ، وہ دھیمی چال سے چلتا ہوا مشہور قبۃ المعراج کے قریب آیا، یہ نبی ء کریم ﷺ کے واقعہء معراج کی یادگار میں قائم کیا گیا تھا، اس قبے پر یہودیوں کی برسائی گئی گولیوں کے نشان دیکھ کر اس کا دل پارہ پارہ ہوگیا ۔
اس کے علاوہ دیگر قبے اس نے دیکھے جن میں قبۃ السلسلۃ،قبہ ء نحویہ،قبہء یوسف، اور قبۃ الشیخ خلیلی شامل تھے ، مغیرہ خیالوں میں کھویا سا صحنِ قدس کے چاروں طرف نظر دوڑانے لگا، اس وقت وہاں اسرائیلی اور صلیبی چہرے ، مکروہ قہقہے اور ان کے وجود کی ناگوار بھبک مسجد کے تقدس کو پامال کر رہی تھی
میرے مولا!! اس مسجد کو زنجیرِ غلامی سے آزادی نصیب کر اور مجھے اس کا سبب بنادے ، اس نے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے ٹوٹے دل سے دعا کی اور اپنے بے تاب آنسو چھپانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے آگے بڑھ گیا ۔
ہائے ! ایک جوشیلی آواز سن کر وہ پیچھے مڑا تو جیف چیونگم چباتے ہوئے اس کی طرف آرہا تھا ۔
ہائے تھنکس۔۔۔ اس نے جوابا کہا ۔
یہ تنہا کس کی یاد میں گھوم رہے ہو َ؟
جس کی یاد میں ہوں ، وہ نہیں مل رہا، مغیرہ نے کہا تو جیف چونکا
کیا پرابلم ہے یار۔۔۔؟
ڈونٹ وری۔۔ چلو مجھے یہ مسجد دیکھنے دو ۔ مغیرہ نے جیف کا ہاتھ کھینچا اور مغربی صحن کے سائے دار حصے کی طرف بڑھا ، جہاں دورِ عثمانی کے قائم کردہ چوبیس چبوترے اپنی نظیر آپ تھے، مشہور چبوترہ بصیری کا چبوترہ، کرک کا چبوترہ، سلچان ظاہر کا چبوترہ ہیں ، درختوں کے سائے میں بنائے گئے چبوترے نہایت خوب تھے، صحن میں ایک اونچے چبوترے پر خوبصورت سنہری گنبد پر اس کی نظر پڑی ۔
جیف!!! یہ کتنا بیوٹی فل ہے نا؟ اس نے اس گنبد کی طرف اشارہ کیا ۔
جیف اس گنبد کے قریب آیا اور بولا : ہاں یہ قبۃ الصخرۃ ہے اور 99 فٹ بلند ہے ، یہ لکڑی کا بنا ہوا ہے ۔
اس پر یہ گولڈ کتنا قیمتی ہے ۔ اس نے تعجب سے کہا ۔
یہ گولڈ نہیں ، سونے کا رنگ چڑھا ہوا پیتل ہے اور سیسہ ہے اور اندر کی طرف گچ کا استر ہے ۔
نائس!! یہ یقینا تمہارے آفیسرز کا کارنامہ ہوگا، مغیرہ نے کریدنے کے لئے پوچھا ۔
یہ یقینا تمہارے آفیسرز کا کارنامہ ہوگا ۔
نہیں یار ! اس کی تعمیر کا آغاز 66ء مطابق 685ء میں اموی خلیفہ عبدالملک بن مروان نے کیا اور تکمیل اس کے بیٹے نے ولید بن عبدالملک کے ہاتھوں 72ھ مطابق 691ء میں ہوئی اور یہ موجودہ عمارت ترک سلاطین سلطان عبدالحمید نے 1853ء اور سلطان عبدالعزیز 1874ء کے عہد کی مرمت کردہ ہے ۔
دیواروں پر بیرونی مینا کاری اور اندازِ تزئین سب مخصوص ترکی طرز کا ہے لیکن مجھے یہ نہیں معلوم کہ یہ کیا لکھا ہے ۔
مغیرہ نے غور سے دیکھا تو چاروں طرف خوبصورت پتھروں پر سورہء بنی اسرائیل اور سورہء یسین کی آیات خطِ طغر میں دلفریب انداز میں تحریر کی گئی تھیں ۔
یہ تحریری کام سلطان عبدالحمید ثانی نے کروایا تھا ، یہ نہایت دل فریب جگہ ہے ، مسلمان یہاں بیٹھ کر تلاوت کرتے ہیں ، اور قبلہ ء رخ ہو کر نماز پڑھتے ہیں ، یہ قبہ جس قدرتی چٹان پر قائم ہے وہ انسان کے سینے کے برابر اونچی، 56 فٹ لمبی ،42 فٹ چوڑی اور تقریبا نیم دائرے کی غیر منظم شکل میں ہے ۔
اس چٹان کے نیچے ایک قدرتی غار ہے جس میں تقریبا ستر آدمی سما سکتے ہیں ، یہ غار مربع شکل کا ہے ، جس کا ہر ضلع تقریبا ساڑھے چار میٹر لمبا اور چھت تین میٹر اونچی ہے ، اس غار میں گیارہ سیڑھیاں اترنے کے بعد ایک محرابی دروازے کے ذریعے داخل ہوا جاتا ہے ، یہ دروازہ سنگِ مرمر کا بنا ہوا ہے، غار کے فرش پر سنگِ مرمر بچھا ہوا ہے ، اس غار میں دو محرابیں ہیں ، دائیں جانب والی محراب کے سامنے ایک چبوترہ ہے، جسے عوام ” مقامِ خضر” اور شمال کے چبوترے کو ” باب الخلیل” کہتے ہیں ،
یہ عمارت اسلامی آثارِ قدیمہ میں سے اولین شہ پارہ ہے، اس کا حسن اور خوبصورتی انسانی وہم و گمان سے بالاتر ہے، حرمِ قدسی کی حدود میں یہ جگہ چونکہ نسبتا ذرا اونچی تھی، خلیفہ ولید بن عبدالملک نے یہاں گنبد والی عمارت تعمیر کروادی جو درحقیقت کوئی مخصوص حیثیت ، فضیلت یا مذہبی اہمیت نہیں رکھتی ، بلکہ صحن القدس میں موجود دوسری عمارتوں کی طرح فن تعمیر کا ایک خوبصورت نمونہ ہے اور بس۔۔۔بعض مؤرخین نے اس عمارت کے بنانے کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ القدس شہر میں کنیسۃ القیامۃ نامی ایک خوبصورت گرجا تھا، جس کو دیکھنے کے لئے زائرین دور دور سے آتے تھے ۔
اسی طرح بیت اللحم میں کنیسۃ المہد نامی ایک تاریخی گرجا تھا جو عیسائیوں کے لئے باعثِ فخر تھا ، ( یہ دونوں گرجے آج بھی ہیں ) ولید بن عبدالملک نے یہ دیکھ کر عزم کیا کہ وہ اس سے زیادہ پر شکوہ عمارت بنائے گا ، بلاشبہ یہ گنبد مسلمانوں کے جذبات کو مہمیز دینے اور مسجد اقصی کی دور سے پہچان کا سبب ہے ۔
مغیرہ اس حیرت انگیز تعمیر پر متعجب ہوگیا اور یک ٹک اسے دیکھتا رہ گیا ۔
کم آن یار!! جیف نے اسے کھینچا تو وہ صحن سے ہٹ کر کشادہ برآمدے میں آگیا جس میں سات دروازے تھے، برآمدہ اپنی مثال آپ تھا ، دیکھنے والے کو مبہوت کردینے والا حسن آنکھوں کو مسحور کردیتا ، اس سے آگے مسجد القدس کا خوبصورت ہال اپنی زینت و تقدس کی پامالی پر حزین و ملول تھا ۔
مسجد کے ہال کا طول 600 گز اور اور عرض 700 گز ہے، مغیرہ نے اندر قدم بڑھائے ، ہال و برآمدہ کی تعمیر نہایت خوبصورت ، پر تکلف اور شاندار تھی ، چھت اعلی قسم کے سنگِ مرمر کے ستونوں پر کھڑی تھی اور ان کے درمیان محرابوں اور مسجد کے گنبد کے اندرونی حصے پر نہایت عمدہ نقش و نگاری اور طلائی کا کام کیا ہوا تھا ۔
قبلے والی دیوار میں ایک بڑا محراب تھا جسے محرابِ داؤد کہتے تھے ، اور اب محرابِ عمر کہا جاتا ہے ، ہال کے مغربی جانب لوہے کا ایک جنگلہ ہے اس میں محرابِ معاویہ کے نام سے ایک محراب ہے ،
مشرقی جانب مستطیل شکل کا حصہ مسجد کے دوسرے حصے سے ممتاز نظر آرہا تھا، دراصل یہ مسجد کا وہ قدیم حصہ ہے جہاں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پہلی پہل مسجد تعمیر کی تھی ، اس وجہ سے اسے جامع عمر کہا جانے لگا اور میں ایک چھوٹا سا محراب بھی ہے ۔
جامع عمر سے شمال کی طرف ایک خوبصورت جگہ ہے ،جسے ایوانِ عزیز کہا جاتا ہے ، ایوان عزیز میں چند اور یہودی گھوم رہے تھے ، مغیرہ نے جیف کو ان کے ساتھ باتوں میں منہمک دیکھا تو خود وہاں سے شمالی جانب بنے ہوئے ایک خوبصورت محراب کی طرف مڑا جو ” محرابِ زکریا” کے نام سے موسوم ہے ، اس کی لمبائی اور چوڑائی 6 میٹر ہے ، وہ اس محراب میں داخل ہوا، وہ یہاں تنہا تھا، تنہائی میں اس کے دل کا داغ بھر آیا ، آنسؤوں کی لڑی اس کی آنکھوں سے بہنے لگی ،، اس نے گردن جھکا لی ۔
اے مسجدِ اقصی!! تجھے عزت بخشنے والی رب کی قسم ! میں تجھے وا گزار کرانے کے لئے جان کی بازی لگا کر رہوں گا، اگر تجھ تک نہ پہنچ سکا تو ترے گرد اپنے خون سے ایسی باڑ ضرور تعمیر کروں گا جو تیرے ناپاک دشمنوں کو تجھ تک پہنچنے سے خوف زدہ کردے گی “
وہ کچھ دیر اسی طرح مسجد سے ہم کلام ہوتے ہوئے عہد و وفا کے پیمان باندھتا رہا، پھر کچھ توقف کے بعد اٹھا، آنسو پونچھے اور جیف کی طرف واپس آیا ۔
ابھی تک یہاں کھڑے ہو ۔۔ چلو !
وہ دونوں دوبارہ صحن میں آگئے ، آنے والوں کی تعداد بڑھ گئی تھی، پھر کراؤن جس کے لئے یہ سن انتظام کیا گیا تھا نہاہت اکڑاتا پھر رہا تھا، اس کی آمد پر چاروں طرف تالیوں اور سیٹیوں کا شور تھا ، خدا کے گھر میں خدا کے دین کے دشمن دندنا رہے تھے ، صحنِ حرم کو پامال کر رہے تھے اور عالمِ اسلام کی ایک بڑی تعداد اپنے گھروں سے یہ منظر ٹی وی کی اسکرین پر دیکھ رہی تھی ، کوئی کڑھ رہا تھا اور کوئی بس خاموش تھا ۔
مغیرہ کی گردن جھکی ہوئی تھی، اس کا دماغ سن تھا ، اس لئے کہ وہ ایک بے بس مسلمان تھا ، اس نے دل میں سوچا ، کہ اگر میں بے بس ہوں تو باقی بھی بے بس ہیں ۔۔۔۔۔ یا وہ بے حس ہیں ؟
اس نے آنکھ اٹھا کر دیکھا تو دور کھڑا فلورا بھی پر تم آنکھوں سے اسے دیکھ رہا تھا ، ۔۔۔۔
مغیرہ نے دور سے فائرنگ اور گولیوں ، چیخوں کی تکبیروں کی آوا ز سنی، یوں محسوس ہورہا تھا جیسے کچھ جوشیلے اور جانباز فلسطینی آپہنچے ہیں اور ناپاک یہودیوں کا طوفانِ بدتمیززی روکنا چاہتے ہیں ۔۔۔ لیکن وہ قریب پہنچنے سے پہلے ہی خون میں نہلا دئے گئے تھے ۔۔۔ کچھ دور خون بہہ رہا تھا ،، اور یہاں جشن ہورہا تھا ۔۔۔ اور وہاں سے دور بہت دور غیرتِ مسلم امہ سو رہی تھی ۔
بہت بہترین منظر کشی
جزاک اللہ خیرا
بہت بہترین سیر کرائی۔ بہترین انداز۔ ذہن میں نقشہ بن گیا
بہت خوبصورت! سچ میں ایسا لگ رہا ہے جیسے ہم مسجد اقصیٰ میں موجود ہوں اور یہ منظر اپنی آنکھو ڈسے دیکھ رہے ہوں۔۔۔۔۔مغیرہ والی فیلینگز ہی محسوس ہو رہیں ہیں ۔۔