آزادی نمبر دوسرا حصہ

آزادی کا دن اور غزہ کا درد

رفیعہ ، طالبہ مرکزالحریم

چودہ اگست کا دن ہر پاکستانی کے دل کے لیے ایک مسرت بھرا دن ہے۔
جب پاکستان کا پرچم فضاؤں میں بلند ہوتا ہے تو دل شکر سے جھک جاتا ہے، اور زبان بے ساختہ کہہ اٹھتی ہے:
“الحمدللہ، ہم آزاد ہیں!”

لیکن اسی لمحے دل کا ایک گوشہ غم سے بھر جاتا ہے…
کیونکہ یاد آتا ہے فلسطین…
یاد آتا ہے غزہ…
جہاں مسلمان صرف دشمن کی گولیوں سے نہیں، بلکہ بھوک، پیاس سے بھی شہید ہو رہے ہیں۔

جہاں بچے آٹے کے ایک تھیلے کی خاطر جان گنوا بیٹھتے ہیں،

جب ہم اپنے گھروں پر چراغاں کرتے ہیں، تو غزہ کی اندھیری راتیں یاد آتی ہیں۔…
وہاں کے بچے بمباری کی آوازوں سے سہمے ہوئے ہوتے ہیں۔
وہاں بچے بھوک کی وجہ سے بے ہوش ہو رہے ہیں ، ان کے دانت گر رہے ہیں اور وہ ہڈیوں کا ڈھانچہ بنتے جا رہے ہیں اور شہادت کا جام نوش کر رہے ہیں.
یہ سب سوچ کر دل ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا ہے
ہائے ہم کتنے مجبور ہیں کہ سب کچھ خاموشی سے دیکھ رہے ہیں

ہم آزاد ہیں، یہ اللہ کا انعام ہے، مگر سوال یہ ہے
کیا ہم واقعی آزاد ہیں، جب ہم اپنے مظلوم بھائیوں کے لیے کچھ نہ کر پائیں؟

آزادی صرف جھنڈا لہرانے کا نام نہیں،
یہ اس احساس کا نام بھی ہے کہ ہم اپنے بھائیوں کے دکھ کو محسوس کریں، عملی طور پر ان کے لیے جو کچھ کر سکتے ہیں اتنا کریں….
ان کے لیے دعا کریں….

یا اللہ ہمیں شکر گزار بنا اور ہمیں توفیق عطا فرما کہ ہم اپنی آزادی کو مظلوموں کے حق میں استعمال کریں

آزادی

تحریر: مریم کاشف

طالبہ مرکزالحریم

چودہ اگست کا دن ایک خوشی کا دن ہوتا ہے۔ یہ دن ہمیں آزادی کی نعمت یاد دلاتا ہے۔ ہر پاکستانی اسے جوش و خروش سے مناتا ہے۔ جھنڈے لگائے جاتے ہیں، ملی نغمے گائے جاتے ہیں، نعرے لگتے ہیں، اور ارضِ وطن پر عید کا سا سماں ہوتا ہے۔ ہر چہرہ یومِ آزادی کی خوشی سے دمک رہا ہوتا ہے۔

لیکن لمحۂ فکریہ یہ ہے:
کیا ہم واقعی آزاد ہیں؟
کیا الگ ریاست، الگ زمین اور الگ آئین ہونا ہی آزادی ہے؟
نہیں! آزادی صرف جغرافیائی حدود کا نام نہیں، بلکہ سوچ، نظریہ اور طرزِ زندگی کے آزاد ہونے کا نام ہے۔(علامہ اقبال -خطباتِ اقبال)

بدقسمتی سے، ہم جسمانی طور پر تو آزاد ہیں، مگر ذہنی، فکری اور تہذیبی طور پر آج بھی مغرب کی غلامی میں جکڑے ہوئے ہیں۔

ہم ایک آزاد ملک میں، ایک آزاد زمین پر، ایک آزاد جسم کے ساتھ صرف “آزادی کے نام” پر زندگی گزار رہے ہیں، مگر ہماری تہذیب، ثقافت، تعلیم، زبان، سیاست، معیشت اور حتیٰ کہ خوراک تک مغرب کے طرز پر ڈھل چکی ہے۔

تعلیم میں انگریزی نظام،
میڈیا میں فحاشی،
لباس میں بے حیائی،
کھانے میں غیر فطری غذائیں ،
زبان میں اردو سے شرمندگی،
عدالت میں انصاف کی کمی،
سیاست میں خودغرضی،
معاشرت میں مادہ پرستی

یہ سب ہمیں بتاتے ہیں کہ ہم اندر سے اب بھی غلام ہیں۔

جیسا کہ اشفاق احمد نے کہا:
“غلامی صرف زنجیروں کا نام نہیں، یہ سوچ کی قید کا نام ہے۔”
(زر، زن، زمین – اشفاق احمد)

ہم نے انگریزوں سے زمین تو چھین لی، مگر فسوس ہمارے ذہن آج بھی ان کے قبضے میں ہیں ۔
ابھی تک پاؤں سے چمٹی ہیں
زنجیریں غلامی کی
دن آجاتا ہے آزادی کا، آزادی نہیں آتی

بھارت کی آزادی میں مسلمانوں کا عظیم کردار

عالیہ کہکشاں

مرکزالحریم ( بھارت)

ناقابل فراموش کردار
بھارت کی آزادی کی جدوجہد ایک ایسی شاندار داستان ہے جس میں ہر طبقے، ہر خطے اور ہر مذہب کے لوگوں نے اپنا خون پسینہ یکجا کیا۔ اس عظیم جدوجہد میں مسلمانوں کا کردار مرکزی، فعال اور ناقابل فراموش رہا ہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مسلمان مجاہدین، مفکرین، رہنما اور عام شہریوں نے بے مثال قربانیاں دے کر آزادی کے اس مقدس مقصد کو حاصل کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
تعارف: ایک مشترکہ جدوجہد کا منظرنامہ
بھارت کی آزادی کی تحریک کو کسی ایک مذہب یا گروہ کی جدوجہد کے طور پر دیکھنا تاریخ کے ساتھ ناانصافی ہوگی۔ یہ ایک مشترکہ قومی جدوجہد تھی، جس میں مسلمانوں نے ابتدا ہی سے بھرپور حصہ لیا۔ ان کی شراکت صرف حاضری تک محدود نہیں تھی، بلکہ قیادت، نظریہ سازی، قربانی اور جہد مسلسل کے ہر پہلو میں نمایاں تھی۔

تعلیمی ادارے: دارالعلوم دیوبند نے نہ صرف دینی بلکہ حب الوطنی کی تعلیم دی۔ اس کے علماء نے براہ راست سیاسی جدوجہد میں حصہ لیا۔ ندوة العلماء (لکھنؤ) نے بھی تعلیم اور قومی شعور کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔
ادب، صحافت اور ثقافت: حریت کی آوازیں

علامہ اقبال

ان کی شاعری نے نہ صرف مسلمانوں بلکہ پورے ہندوستان میں حریت و خودی کا جذبہ بیدار کیا۔ “سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا” اور “مسجدِ قرطبہ” جیسے کلام قومی جذبے کا ترجمان ہیں۔

مولانا ابوالکلام آزاد: “غبارِ خاطر” اور ان کی صحافتی خدمات نے سوچ کو گہرائی دی اور آزادی کے جذبے کو مہمیز کیا۔

جوش ملیح آبادی، فیض احمد فیض، حسرت جے پوری: جیسی شخصیات نے اپنی شاعری سے جدوجہد آزادی کو تقویت بخشی۔
قربانیوں کا انبار: جیل، کوڑے، پھانسی

مسلم مجاہدین کو بھی جیلوں کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں (مولانا آزاد تقریباً 11 سال جیل میں رہے)۔

انہیں بھی کوڑے برسائے گئے۔

اشفاق اللہ خان جیسے بہادروں کو پھانسی دی گئی۔

ہزاروں گمنام مسلمانوں نے جیل کاٹی، جائیدادیں گنوائیں، تشدد سہا۔
نتیجہ: ایک متحدہ میراث
بھارت کی آزادی میں مسلمانوں کا کردار کسی بھی طرح دوسرے طبقوں سے کم نہیں ہے۔ ابتدائی بغاوت سے لے کر تحریک خلافت، انقلابی سرگرمیوں، عدم تعاون، کانگریس کی قیادت اور ادبی خدمات تک، ہر میدان میں مسلمان ہندوستان کی آزادی کے متوالوں میں شامل رہے۔ ان کی قربانیاں، جہد مسلسل اور عزم ہندوستان کی مشترکہ قومی میراث کا حصہ ہیں۔ اس تاریخی حقیقت کو پہچاننا اور اس پر فخر کرنا نہ صرف انصاف ہے بلکہ آج کے متحدہ، سیکولر اور جمہوری ہندوستان کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کے لیے بھی ضروری ہے۔ آزادی کا یہ سفر سب ہندوستانیوں کا مشترکہ ورثہ ہے، جس میں مسلمانوں کا حصہ ہمیشہ تابناک رہے گا

Markaz Al Hareem

an educational institute for young female youth

Leave a Reply