آخری خواہش

عروج فاطمہ
طالبہ مرکزالحریم
بارش کے بوند بوند قطروں نے کھڑکی کے شیشے پہ ہلکی سی دستک دی۔ رات اپنی پوری خاموشی اوڑھے گلیوں پر چھا چکی تھی، مگر باہر ایک عجیب سی ہلچل تھی۔ 13 اگست کی رات تھی، گلیاں سبز جھنڈے اور جھنڈیوں سے سج چکی تھیں۔ برقی قمقموں کی روشنیوں میں بچے بچیاں خوشی سے نعرے لگا رہے تھے، کہیں قومی ترانے کی آواز بلند ہو رہی تھی، کہیں ہنسی قہقہے گونج رہے تھے۔ خوشیوں کے اس شور میں ایک کمرہ ایسا بھی تھا جہاں وقت تھم سا گیا تھا — میرے دادا جان کا کمرہ۔
دادا جان کئی دنوں سے علیل تھے۔ ان کا سانس لینا اب محنت طلب کام بن چکا تھا۔ چہرے پر تھکن کے باوجود ایک عجیب سی طمانیت چھائی ہوئی تھی، جیسے وہ کسی گہرے سکون میں ہوں۔ ان کی آنکھوں میں وقت کے کئی دور سمٹے ہوئے تھے، اور پیشانی پر برسوں کی قربانیوں کی جھریاں۔
میں آہستہ قدموں سے کمرے میں داخل ہوا۔ ان کی آنکھوں میں ہلکی سی چمک ابھری جب انہوں نے مجھے دیکھا۔ میں ان کے قریب جا کر بیٹھ گیا۔ انہوں نے کمزور ہاتھوں سے میرا ہاتھ تھاما۔ ان کی انگلیوں میں اب وہ مضبوطی نہ تھی جو میں نے بچپن میں محسوس کی تھی، مگر ان کی گرفت میں ایک عجیب سی محبت اور ذمہ داری کا احساس تھا۔ دھیرے سے وہ بولے،
“بیٹا، میری الماری میں ایک پرانا پرچم رکھا ہے… وہ لے آؤ۔”
میں فوراً اٹھا۔ کمرے کے کونے میں رکھی لکڑی کی پرانی الماری کھولی تو ایک مخصوص سی خوشبو میرے حواس میں اتر گئی — پرانے کپڑوں اور سنبھالے گئے زمانوں کی خوشبو۔ تہہ در تہہ رکھی چیزوں میں ایک سبز و سفید پرچم نظر آیا۔ اس کے کنارے کچھ جگہ سے ماند پڑ چکے تھے، مگر کپڑے کی نرمی اور رنگ کی تازگی اب بھی برقرار تھی۔ جیسے وقت نے اس پر ہاتھ ڈالنے کی ہمت نہ کی ہو۔ میں نے آہستہ سے اسے نکالا اور دادا جان کے پاس لے آیا۔
انہوں نے کپکپاتے ہاتھوں سے پرچم لیا اور اسے اپنے سینے سے لگا لیا۔ اس لمحے ان کی آنکھوں میں نمی تیر گئی، اور ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ آ گئی۔ کچھ دیر وہ چپ رہے، جیسے یادوں کی ایک لمبی فلم ان کی آنکھوں کے سامنے چل رہی ہو۔ پھر دھیرے سے بولے،
“بیٹا… یہ صرف کپڑے کا ٹکڑا نہیں ہے۔ یہ میری جوانی، میرے خواب، اور میرے ساتھیوں کی قربانیوں کا نشان ہے۔ ہم نے اس کے لیے اپنا گھر، اپنے پیارے، اور اپنا سب کچھ چھوڑا۔”
میں خاموش بیٹھا انہیں دیکھ رہا تھا۔ ان کی باتوں کا ہر لفظ میرے دل پر نقش ہوتا جا رہا تھا۔ وہ مزید بولے،
“میں اُس وقت تمہاری عمر کا تھا جب یہ پرچم ہمارے لیے سب کچھ بن گیا تھا۔ ہم نے آزادی کا خواب دیکھا اور اس خواب کو حقیقت بنانے کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر دیا۔ راستے کٹھن تھے، مگر دل میں ایک ہی جذبہ تھا — کہ آنے والی نسلیں آزاد سانس لیں گی۔”
ان کے لہجے میں تھکن کے باوجود ایک عزم کی گونج تھی۔ میں نے آہستہ سے پوچھا،
“دادا جان… کیا ہم ان قربانیوں کے حق دار بن سکے؟”
یہ سن کر وہ کچھ لمحے خاموش رہے، پھر میرے ہاتھ میں پرچم تھما دیا۔ ان کی آنکھوں کی نمی اب آنسو بن کر بہنے لگی۔
“یہ سوال تمہارے دل میں ہمیشہ رہنا چاہیے، بیٹا۔ اور اس کا جواب تمہیں اپنی زندگی سے دینا ہوگا۔ یاد رکھو… اس پرچم کو کبھی جھکنے نہ دینا۔”
رات آہستہ آہستہ اپنی چادر سمیٹ رہی تھی۔ میں دادا جان کے بستر کے پاس کرسی کھینچ کر بیٹھا تھا۔ کمرے میں ہلکی روشنی جل رہی تھی، جو دیواروں پر دھندلے سائے بنا رہی تھی۔ دادا جان کبھی آنکھیں موند کر پرانی یادوں کی گلیوں میں کھو جاتے، کبھی ہونٹوں پر کوئی دُعا لے آتے۔ میں ان کے چہرے کے اتار چڑھاؤ کو دیکھتا اور سوچتا کہ شاید یہی چہرہ ایک تاریخ کی جیتی جاگتی کتاب ہے۔
باہر آتشبازی کے رنگ بکھر رہے تھے۔ ہر دھماکے کے ساتھ آسمان پر ایک نیا نقش بنتا اور مٹ جاتا، لیکن میرے لیے اس رات کا سب سے روشن منظر یہ تھا — میرے سامنے بستر پر نیم دراز دادا جان، سینے کے قریب رکھا سبز و سفید پرچم، اور ان کے چہرے پر چھایا ہوا سکون۔
رات کے آخری پہر ٹھنڈی ہوا کھڑکی سے اندر آنے لگی۔ میں نے ایک کمبل آہستہ سے دادا جان پر ڈال دیا۔ وہ ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ بولے، “بیٹا… جاگ رہے ہو؟”
میں نے کہا، “جی دادا جان۔”
انہوں نے دھیرے سے کہا، “یاد رکھو، ملک سے محبت صرف الفاظ میں نہیں، عمل میں ہونی چاہیے۔”
صبح کی پہلی کرن نے کمرے کو سنہری روشنی سے بھر دیا۔ باہر گلی میں قومی ترانے کی دھن سنائی دے رہی تھی۔ فضا میں 14 اگست کی تازگی، چڑیوں کی چہچہاہٹ اور اذان کی آواز گھل کر ایک خاص روحانی کیف پیدا کر رہی تھی۔ میں نے دادا جان کی طرف دیکھا۔ وہ بستر پر نیم سہارا لیے بیٹھے تھے، چہرے پر ہلکی سی روشنی اور آنکھوں میں ایک زندہ جذبہ تھا۔
انہوں نے اشارہ کیا، “آؤ بیٹا، آج ہم دونوں مل کر یہ پرچم چھت پر لگائیں گے۔”
میں نے حیرت سے کہا، “آپ کی طبیعت…؟”
وہ مسکرائے، “آج یہ سب بھول جاؤ، یہ دن ہمارے لیے کسی عید سے کم نہیں۔”
ہم آہستہ آہستہ سیڑھیاں چڑھ کر چھت پر پہنچے۔ ٹھنڈی ہوا کے جھونکے پرچم کے کپڑے سے کھیل رہے تھے، جیسے وہ خود خوشی منا رہا ہو۔ میں نے دادا جان کے ساتھ مل کر پرچم باندھا۔ جب وہ ہوا میں لہرانے لگا، تو سورج کی کرنیں اس پر پڑ کر اسے اور جگمگا رہی تھیں۔
اس لمحے مجھے محسوس ہوا کہ یہ پرچم صرف ایک علامت نہیں، بلکہ ایک ذمہ داری ہے… ایک امانت جو اب میرے ہاتھ میں ہے۔
اور اسی وقت میرے دل کے اندر ایک مضبوط عہد جاگ چکا تھا
میں اس پرچم کو کبھی جھکنے نہیں دوں گا، اور اپنی زندگی اس ملک کی عزت، خدمت، ترقی اور خوشحالی کے لیے وقف کر دوں گا۔

حب الوطنی کے تقاضے
فرح ناز
طالبہ مرکزالحریم
اسلام کے نام پر بننے والے پاکستان کی آزادی کو ایک اور سال بیت گیا۔ مگر اہل وطن اپنی آنکھوں میں سنہرے خواب سجائے آج بھی اپنی نگاہوں کو ان خوابوں کے شرمندہ تعبیر ہونے کی طرف اٹھائے ہوئے ہیں جن کے وعدوں اور امیدوں پر اس نئی ریاست کی بنیاد پڑی تھی۔
عجب یہ ہے کہ ستر،اسی سال گزرنے کے بعد بھی آخر ہم انتظار کے چوراہے پر ہی کیوں کھڑے ہیں؟ ہم ان خوابوں کو عملی جامہ کیوں نہ پہنا سکے؟ ممکن ہے تجزیہ نگار اس کی بہت سی وجوہات بیان کر ڈالے لیکن ایک بنیادی و اہم وجہ ایک شہری کی غفلت،قوم و ملت اور اسلام کے ساتھ خیانت،غیر ذمہ دارانہ و غیر سنجیدہ رویہ ہے۔
اس کے باوجود بھی ہمارا دعوی حب الوطنی کا ہے۔ جبکہ اس کا ایک ہی تقاضا ہم پورا کرتے ہیں، اور وہ ہے زندہ باد کا نعرہ لگانا یا چودہ اگست کا دن منانا،وہ بھی اپنی خواہشات کی تکمیل اور خرافات میں،یا اپنے پاکستانی ہونے پر فخر کرنا وہ بھی فقط زبانی،ضروری تو یہ تھا کہ ملک و ملت ہم پر فخر کرتا، اب وہ کتنا فخر کرتی ہوگی یہ ہم نہ سنے تو اچھا ہے۔
ہر سننے والے کو یہ باتیں تلخ محسوس ہونگی لیکن حقائق سے آنکھیں چھرانے کا ہی تو ہم آج تک نقصان اٹھا رہے ہیں۔ اس سے بھی تلخ بات شاید یہ لگے کہ جس کسی کو بھی ہم اپنے ملک کا دشمن سمجھتے ہیں، ہم اور ان میں کوئی خاص فرق تو نہیں ہے۔ آخر کو وہ بھی نقصان پہنچاتا ہے اور ہم بھی۔ وہ بھی ملک کے مال کو لوٹتا ہے اور ہم بھی۔ مگر وہ دشمن ہے اور ہم محب وطن!!!
جس کی آنکھیں انصاف کی روشنی سے بینا ہونگی تو وہ اس بات کا قائل ہوئے بغیر نہیں رہ سکے گا کہ ہم اپنے اداروں میں،عہدوں میں،تعلیم میں،قوانین میں،اپنی تجارت و کاروبار میں رشوت،دھوکے،لوٹ مار،قتل و غارت اور بیش بہا جرائم کی صورت میں جو خیانتیں کرتے ہیں کیا وہ ملت کو برباد کرنے اور اس کے دشمن بننے کے مترادف نہیں ہے جو ایک حقیقی دشمن کا بھی ہدف ہے۔
ایک شہری بطور طالب علم کے صرف اپنے نقل سے ہی پورے تعلیمی نظام کو برباد کرتا ہے،آفت یہ کہ وہ اسے کار ثواب سمجھ کے کرتا ہے۔ اس نقل سے لے کر بڑے بڑے عہدوں تک خیانتوں کی کڑیاں ہیں جو زنجیر بن کر ہر شہری کے ہاتھ میں بندھی ہے اور اس زنجیر کے سرے پر حب الوطنی کا جھنڈا ہے۔
موقع مسرت کا ہے کیونکہ آزادی ملی ہے لیکن اس آزادی کو معنوی، فکری و ذہنی غلامی میں بدلنے کے لئے کس نے کتنا حصہ ڈالا وہ حساب سے باہر ہے۔
تصویر کے دوسرے رخ پر بہت سے دیانتداروں کے نام بھی درج ہیں جنہوں نے اسلام و ملت کی خدمت میں جانیں گنوئیں اور آج بھی گنوا رہے ہیں۔ لیکن ہم اکثر کے نام تصویر کے پہلے رخ پر درج ہیں۔ یہ کہنا بھی بے جا نہ ہوگا کہ پہلے سیاہ رخ پر ایک دو نام بھی درج ہوجائیں تو ملک اور ان دیانتداروں کی قربانیوں کو برباد کرنے کے لئے کافی ہے۔
خیال ناچیز میں اس چودہ اگست پر ہر پاکستانی کو جھنڈے لہرانے ،پروگرام کرنے، سبزو سفید لباس پہننے اور برائے نام آزادی کا جشن منانے کی بجائے ایک گوشہ تنہائی میں یکسو ہو کر ایک گونہ سوچنا چائیے کہ کیا وہ حقیقتا محب وطن ہے،محب اسلام ہے؟ اگر ہاں،تو آج تک وہ اس کا کتنا حق ادا کرچکا ہےاور کتنی خیانت کرگیا ہے، اگر ضمیر نے ذرا جھنجھوڑا تو پھر یہ سوچ لے کہ وہ اس خطے کی ترقی اور اس میں اسلام کے فروغ کے لئے کتنا کردار ادا کرسکتا ہے،اور پھر اس کا پختہ عزم بھی کرلے۔
اپنی برائیوں و غداریوں اور ناکامیوں کا بار دوسروں پر ڈال کر شکوے شکایت کرنا اور برے حکام کو ہی صرف مورد الزام ٹہرا کر خود کو سبکدوش سمجھنے کی بجائے اگر ہم اپنے آپ کو ایک کارآمد شہری و فرد ملت بنائے تو ملک بدلے نہ بدلے ہمارا نام تو خیانت کاروں کے سیاہ فہرست سے نکل کر دیانتداروں و صلحاء میں شامل ہوجائے گا۔ اور اس سے بڑھ کر کونسی کامیابی ہوگی جو ہمیں دنیا و آخرت میں سرخرو کریں۔
شکوہ ظلمت شب سے تو کہی بہتر تھا