تحریر : نمل خان
معلمہ مرکزالحریم، تخصص فی التفسیر
السَّفَرِ قِطْعَةٌ مِنَ الْعَذَابِ وَاسْتِحْبَابِ تَعْجِيلِ الْمُسَافِرِ إِلَى أَهْلِهِ بَعْدَ قَضَاءِ شُغْلِهِ
یہ حدیث اور سفر سے متعلق متعدد د احادیث ہمیشہ پڑھی اور سنی لیکِن سفر کا صحیح مشاہدہ مرکز الحریم کے ساتھ تعلیمی دورہ انڈونیشیا ،بینکاک میں شرکت کرکے ہوا۔

مجھے بہت اچھے سے وہ دن یاد ہیں ہیں جب ایک دن اچانک معلمہ حیا حریم صاحبہ کا میسج آیا اور یہ بتاتے ہوئے وہ بہت خوش تھی کہ پہلی مرتبہ پاکستان سے عالمی سطح پر مرکز الحریم کو نمائندگی کا موقع مل رہا ہے اور اس میں معلمہ نے اپنے ادارے کی معلمات و طالبات کو شریک کرنے کی درخواست کی، جس میں سے چار طالبات کا انتخاب ہوا لیکِن جانے کی ترتیب اللہ کے فضل سے میری ہوئی ۔ اگرچہ یہ مراحل بالکل بھی آسان نہیں تھے اور آخری وقت تک کچھ بھی كنفرم نہیں لگ رہا تھا لیکن اللہ نے یہ سفر میرا لکھا تھا سو راستے کی ہر مُشکل آسان ہوتی گی اور پھر وہ وقت آ گیا جب مفتی عبد الماجد صاحب نے ایمبیسی کے معاملات سے لیکر ،ٹکٹ اور دورہ تھائی لینڈ کی تمام چیزوں کو انتہائی کم وقت میں مکمل کروا کے اگلے دن کی فلائٹ کا ٹائم بتایا اور میں اس وقت بھی بے یقینی کی سے کیفیت میں تھی ۔
معلمہ اور مفتی صاحب ہر لحمہ ایک ایک چھوٹی سے چھوٹی چیز پر رہنمائی کرتے رہے اس لیے ابتدائی سفر میں کوئی پریشانی نہیں ہوئی بحمدللہ ۔
اب حقیقی سفر شروع ہوا پہلی فلائٹ کراچی سے بینکاک تک کی تھی اور اگلی فلائٹ انڈونیشیا جکارتہ کی تھی جس میں کچھ گھنٹوں کا انتظار تھا گھر اور مرکز کے افراد مسلسل رابطے میں تھے ان سے بات کر کے یہ وقت بھی گزر گیا۔
دوسری فلائٹ میں آگئے اور قدرت کے مناظر آسمان کی بلندی سے دیکھ کر ایک عجیب سا سحر انگیز منظر تھا کے وقت رک جائے اور آنکھیں بغیر جھپکائیں اس کو دیکھتے رہیں وقت گزرتا رہا اور کبھی سوتے جاگتے جکارتہ ایئرپورٹ پر قدم رکھا دوپہر کا ٹائم ہوگیا تھا اور یہاں کافی الگ موسم تھا گرم حبس ساتھ بوندا باندی، بانچ گھنٹے تقریبا اس جگہ رہے اس دوران ایک اور فلائٹ لینی تھی سمارنگ جانے کے لئے اور دوسری ساتھی سری لنکا سے تھی ان سے ہماری ملاقات ہوئی بہت اچھے اخلاق سے ملی، دوسرے ٹرمینل جا کر فلائٹ کا معلوم کیا لیکِن اگلی صبح تک کوئی بھی بکنگ نا ملنے کا بتایا کانفرنس ٹیم نے ہمیں بتایا کہ چاہیں تو آپ لوگ صبح تک فلائیٹ کا انتظار کرلیں قریب کوئی ہوٹل بک کروا دیتے ہیں یا آپ ٹرین سے آجائے، سفر کرنا ہی تھا سو ہم دونوں نے(سسٹر محبوبہ) یہ طے کیا ہم ٹرین سے جائیں گے جو کے تقریبا 6 گھنٹے کا راستہ تھا ہم سفر اچھا ہو تو طویل سفر بھی اچھا لگتا ہے ہم چیزوں کا مشاہدہ کرتے ہوئے اسٹیشن پہنچے ٹرين میں ابھی دو گھنٹے کا وقت تھا کافی سوچ بیچار کے بعد ہم ایک کافی شاپ میں گئے کافی اور چائے کے نام پر برف سے بھرا مگ پیپسی کی بالٹی کا منظر پیش کر رہا تھا ، دل پر پتھر رکھ کر جیسے تیسے اِسکو حلق سے اتارا اور اگلے منزل کی طرف بڑھ گئے، سیٹیں،اسٹاف سب بہت اچھا تھا ہم اپنی منزل پر پہنچ گئے اور وہاں سے انڈونیشا ویمن کانگریس کی ٹیم نے ہمارا بہت اچھا محبت سے استقبال کیا رات 4 ہم اپنے ہوٹل آئے، سری لنکن سسٹر اب سے ہماری روم میٹ بھی ہوگئی یہاں تک تو سفر کے وہ ادوار تھے جن میں ایک انجانی خوشی نے تھکنے ہی نہیں دیا، صبح 8 بجے پہلا ناشتہ کیا ہر چیز بہت اچھی تھی لیکن ہماری مخصوص چائے نہ تھی سو اور نعمتوں سے انصاف کیا اور اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے اپنے اگلے پروگرام کی طرف بڑھ گئے معلمہ سے ملاقات میں کچھ گھنٹوں کا انتظار باقی تھا لیکن انکی خاص ہدایت موصول ہوئی کہ یونیورسٹی میں ایک سیشن ہے آپ شرکت کریں تو اچھا رہے گا فوراً تیاری پکڑی ڈاکٹر عصمہ (معلمہ کی دوست ) نے پر تپاک استقبال کیا اور فورا گلے لگا لیا اور ہاتھ پکڑ کے سینشن ہال میں لے ائی اور اپنے ساتھ بٹھایا اور مختلف اسکالر سے تعارف بھی کرواتی رہی پاکستان سے آئی ہیں یہ سن کے بہت خوش ہوتے اور انتہائی محبت سے شکریہ ادا کرتے رہے،
تقریباً ایک گھنٹے کے ایک سیشن ہوتا پھر وقفہ اور پھر دوسرے کسی ہال میں اگلے سیشن کے لئے جمع ہوجاتے۔

ایک چیز جو اس دوران دیکھی وہ یہ کے جو بھی مقررہ /مقرر ہوتے وہ اپنی سلائیڈ اپنا لیکچر دیتے باقی اس دوران کوئی اگر موبائل فون کا استعمال یا سیشن کے دوران چلے جانا انِ کے یہاں معیوب نہیں سمجھا جاتا ہے۔ شام 4 بجے ہمت ختم ہوئی اور اسکے ساتھ ہی اجازت چاہی اور ہوٹل کی طرف رواں ہوگئے۔
شام میں کانفرنس کی جانب سے انٹرنیشنل شرکا کے لئے ویلکم ڈنر تھا مسلسل سفر اور نیند پوری نا ہونے کی تھکن ضرور تھی لیکن خوشی اور نئی چیزوں کے مشاہدے نے سب دور کر دیا تھا۔
یہاں ایک چیز محسوس کی کہ یہ لوگ اپنی ثقافت سے بہت زیادہ قریب تھے جیسے کہ ان کے ہاں رقص ان کا اپنا لباس دف۔چیزوں کا ڈرامے کے انداز میں دکھانا یہ تمام چیزیں ان کی ثقافت کا حصہ معلوم ہوئی۔
یہاں لوگ بہت ہی عاجزانہ انداز میں مہمان حضرات سے ملتے محبت سے انکے ہاتھ کو چومتے انکے ملک کا وزير اعظم یا دیگر کوئی بھی عہدیداران عوام کے ساتھ آرام سے بیٹھ جاتا، کھانے کے اعتبار سے بھی یہ لوگ انتہائی خوش خوراک (معیاری) تھے۔
اگلے دن کانگریس جو اسلامی یونیورسٹی میں تھی جسمیں معلمہ نے پاکستان عالمات کی طرف سے بہترین نمایندگی کی۔ (اکثر لوگ اس بات پر حیران تھے کے پاکستان سے وہ بھی عالمات مفتیات اس پلیٹ فارم پر نمائندگی بڑا اقدام و خوش آئند بات ہے) معلمہ کی علمی قابلیت کے جوہر مرکز میں تو ہمیشہ دیکھے لیکن انٹرنیشل سطح پر انگلش، عربی میں انتہائی پر اعتماد انداز میں وہ ہر ایک سے گفت شنید کرتی رہی ، یہاں ہم نے ایک اور چیز کا مشاہدہ کیا کہ علم وہ عالم ہونے کا معیار ان کے یہاں داڑھی پگڑی برقع نہیں تھا، یہاں تک کہ کسی زبان کا آنا بھی ان کے یہاں ضروری نہیں تھا ان کی اپنی زبان کا آنا ہی کافی تھا ان کے لئے،اکثر سیشن میں باقاعدہ غیرملکی ترجمان موجود تھے جو مکمل احسن طریقہ سے ترجمانی کر رہے تھے اور ہمارے جیسے شرکاء کو جنکو انڈونیشیین لینگویج نہیں آتی ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ کان پر ٹرانسلیٹر لگائے کسی ریڈیو اسٹیشن پر موجود ہوں۔
اس دن ہم شام تک فارغ ہو گئے کیوں کے اگلے دن ہمارا جیے پارا کا سفر تھا ہوٹل آکر معلمہ کے ساتھ ایک اور پروگرام بنایا کے کل ہم یہاں سے رخصت ہوجائٰیں اس لئے ہمہیں باہر جا کے کچھ دیکھنا چاہیے۔
سو ہم باہر نکلیں اور تھوڑی ہی دور ایک مسجد نظر ائی دو تین خواتین بائیک اور ہیلمیٹ کے ساتھ نظر ائی مجھے بہت حیرت ہوئی خواتین کے مسجد میں آنے پر (پاکستان کی تمام چیزیں ذہن میں تھی) میں نے باجی سے کہا کہ کیا ہم بھی مسجد کے اندر جا سکتے ہیں اس وقت؟ تو باجی نے کہا کیوں نہیں پھر ہم نے ان خواتین سے پوچھا کیا مسجد کھولی ہوئی ہے تو انہوں نے اپنی زبان میں بتایا جی آپ اس راستے سے جائے میری حیرانی بڑھتی ہی گئیں کیوں کہ اس وقت مسجد میں کوئی بھی نہیں تھا لیکن وہاں کی صفائی، خواتین کے لئے الگ جگہ یہ چیزیں میرے لئے بہت نئی تھی مسجد بہت بڑی تھی اور مکمل طور پر کھلی ہوئی تھی، وضو خانہ کی جگہ بہت وسیع
تھی۔

ہم دل ہی دل اپنے پاکستان میں بھی ایسی جگہوں کی دعا کرتے ہوئے اپنے ہوٹل لوٹ ائے ۔
اگلی صبح جے پارا جانے کے لئے تمام لوگوں کو جمع کیا گیا اور یہ سفر بھی ہم مختلف جگہوں جن میں راتو کلی نعمت کا مقبره جو جا پارا کی ملکہ اور انکی خواتین کے لئے ایک رول ماڈل تھی وہاں کا بھی دورہ کیا،خاص بات یہاں پر بہت ساری تھی جن میں ایک یہ بھی تھی کہ اس کے عقب میں ایک خوبصورت تاریخی مسجد تھی اس مسجد میں میں مردوں کی نماز کی ادائیگی کی جگہ بعض مقامات پرخواتین کی صفوں کے ساتھ یا مقدم نظر ائی ہے اور بڑے بڑے ڈھول جو نمازیوں کو متوجہ کرنے کے لیے رمضان سحر افطار میں بالخصوص بجائے جاتے ہیں،
مزے کی بات جو مجھے لگی راتوکلی قبرستان میں ان کے شوہر ،سوتن سوتیلی بیٹی تھیں ایک لائن سے ہی تمام قبروں پر پتھر جو خاص انکے خاندانی مراسم چائنہ سے تھے اس وقت بھی وہ بطور نشانی تھا وہ جگہ بہت ساری نئی چیزیں کا احاطہ کئے ہوئے تھی ہم نے کافی وقت وہاں گزارا اور نماز پڑھ کے اگلی منزل کی جانب روانہ ہوئے(اسکے بارے میں بہت جامع انداز میں تفصیل معلمہ کے آرٹیکل میں بھی ملاحظہ کر سکتے ہیں)
اگلی منزل ہمارا دوپہر کا کھانا تھا جس کے لیے ڈھابے کا انتخاب کیا گیا اور وہاں ہم مختلف ٹولیوں کی شکل میں بیٹھ گئے خواتین کے ساتھ بڑی ہی دلچسپ گفتگو بھی چلتی رہی
اگلے روز جو سیشن تھے وہ مدرسہ ہاشم الا شعری جو ایک قدیم مدرسہ 1965 میں بنایا گیا تھا،یہ ایک مسلمان تنظیم کے طرز فکر پر جس کے اراکین کی تعداد کم و بیش 30 ملین سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔
اس کے ساتھ ہی یہاں پر جتنے بھی دن ہمارے گزرے جن چیزوں کا خاص طور پر مشاہدہ کیا وہ یہ تھا کہ ان کے یہاں بالکل آزادی تھی بین الاقوامی شرکاء مدرسے کے کسی بھی کونے میں جائیں پھرے انہیں کسی قسم کا کوئی خوف یا اعتراض نہیں تھا 24گھنٹے دسترخوان مختلف انواع سے بھرے رہتے، الگ موضوعات پرسیشن چلتے رہتے جس کو یہاں کی باشعور خواتین بڑے ہی ذوق و شوق سے نا صرف سنتی بلکہ سوالات بھی کرتی جس سے ان کی علمی و تحقیقی قابلیت حیثیت کا بخوبی اندازہ ہو رہا تھا،
ایک اور بات جس کو میں نے متعدد مرتبہ معلمہ سے بھی ذکر کیا وہ تھا یہاں کی مہتممہ صاحبہ کا لوگوں ساتھ گھل مل جانا ان کے انداز سے ایسا محسوس ہی نہیں ہوتا تھا کہ وہ اتنے بڑے مدرسے کی منتظمہ ہیں کیسی قسم کا کوئی پروٹوکول یا ارد گرد معلمات کا خاص حلقہ نظر نہیں آیا جیسے ہمارے یہاں عام نظامِ تعلیم کا حصہ بن گیا ہے۔
انتہائی احترام ادب سے ایک ایک سے ملاقات کر رہی تھی اور شکریہ ادا کر رہی تھی۔ انفرادی طور پر بھی معلمہ کو انہوں نے کافی وقت دیا اور مرکز الحریم کا تعارف اور یہاں کی طالبات کی پڑھائی و طریقے کار پر بھی بریف کیا جس پر ان کے تاثرات بہت اچھے تھے، میں دل ہی دل سوچ رہی تھی اتنے بڑے مدرسے کی منتظمہ انکا طرز گفتگو، انکا انداز انکی بہترین شخصیت کا آئینہ تھا۔
ہر دن کانفرنس کا یونہی علمی حلقوں میں گزرتا گیا اور آخر کار وہ وقت بھی آگیا جب اس کے آخری مراحل تھے تمام ممالک کے لوگوں کو انکے ملک کے ساتھ پکارا گیا وہ لمحہ بڑا ہی خوب صورت تھا جب پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے معلمہ باوقار انداز میں پاکستان کا جھنڈا ہاتھ میں لیے اسٹیج کی طرف جارہی تھی اور میں مرکز الحریم کی علامت لگائے اس منظر کو ویڈیو میں قید کر رہی تھی
لوگ ایک دوسرے سے ملتے رہے اور حسین یادیں لئے ہم دوبارہ ہوٹل آگئے ۔
اس دوران بہت سے اداروں نے ہمیں دعوت دی کے انکے مدرسے جائیں اور پاکستان میں نظام تعلیم جیسے موضوع پر گفتگو کریں لیکِن وقت کی کمی تھی ،دوسرے ملک جانا تھا سو طے یہ کیا ہم ڈاکٹر عصمہ صاحبہ کی دعوت قبول کرتے ہوئے صبح 6 بجے انکے ساتھ روانہ ہوں گے تقریبآ 4 گھنٹے کا راستہ طے کرتے ہوئے ہم انکے خوب صورت گاؤں پہنچے منظر ایسا تھا کے یقین ہی نہیں آرہا تھا اب تک ایسے درخت ہریالی چھوٹے چھوٹےسے گھر صرف تصاویر میں ہی دیکھے تھے اب حقیقت میں دیکھنا، دل کی کیفیت ہر منظر پر عجیب سی ہوجاتی میرا دل اللہ کی ہر قدرت پر تشکر سے بھرپور یہ سوچ رہا تھا یا رب تیری کائنات کے ایسے منظر بھی دیکھنے نصیب میں ہے۔
ڈاکٹر عصمہ نے بہت اچھی خاطر تواضع کی اس دوران مسلسل سفر اور بے آرامی نے مجھے بہت تھکا دیا تھا موسم کی تبدیلی ايسی لگی کے کوئی قہوا و دوا بھی اثر نہیں کر رہی تھی ہم رات کھانستے رہے اور ہماری باجی پوری رات صبر کرتے ہوئے فکرمندی سے جاگتی رہیں جسکا ادراک صبح اُٹھ کر ہوا۔
شام مدرسہ افکارنا میں معلمہ کا لائیو سیشن تھا جسمیں پاکستان میں خواتین کے مدرارس انکا نصاب و طریقہ اور ساتھ ہی مرکز الحریم کا تعارف، مقاصد اور خاص مجلس عاملہ کی با شعور خواتین کا تعارف پیش کرنا تھا۔
وقت مقررہ پر ڈاکٹر عصمہ کے ہمراہ مدرسے پہنچے جہاں پر انتظامیہ جسمیں خود مدرسے کے مہتمم، مہتمہمہ، دیگر اساتذہ اکرم نے پڑا پرجوش استقبال کیا اپنے آفس لے گئے جو میٹینگ ہال جیسا کشادہ سا تھا پہلے فروٹس جوس سے اکرام کیا اور ساتھ ساتھ گفتگو بھی جاری رہی اسکے ساتھ ہی ہم کچھ دیر میں ایک اور کشادہ ہال میں آگئے جہاں انکے طلبہ و طالبات نے باقاعدہ دف بجا کے نہایت بلند آواز میں۔ طلع البدر علینا پڑھتے ہوئے ہمارا استقبال کیا طلبہ و طالبات کے درمیان پردہ حائل تھا وہ بہت حیرانگی سے دیکھ رہے تھے اِسکی وجہ ہمیں بعد میں معلوم ہوئی کے انکے مطابق پہلی بار کالے عبايا اور نقاب کے ساتھ یہاں کوئی خواتین مہمان ائی ہیں
2 گھنٹے کا یہ لائیو سیشن رہا، کچھ مُشکل اس وقت ہوئی جب میرے زمے مرکز الحریم کی مجلس کی خواتین کا تعارف جسکو کچھ ٹیکنیکل سروسز کی وجہ شروع نہیں کر پا رہے تھے لیکن آخر انکی میڈیا ٹیم کے ساتھ یہ مرحلہ بھی ہوگیا۔ (وہ اسٹوڈینٹ تھے جیسے ہی میں انکے پاس گئی وہ بہت جھجھک رہے تھے دوسرا انکو انگریزی نہیں اتی تھی فوراً گوگل پر سرچ کرتے اور میری بات سمجھنے کی کوشش کرتے، کس ویڈیو کو پہلے لگانا ہے اور کس سلائیڈ کے ساتھ) آخر میں اسٹوڈنٹس کے سوال انکی دلچسپی اور بہت ہی حیران کن تھی۔ ایک بات یہاں پر پاکستان کی خواتین میں اگر کیسی کو جانتے ہیں تو ملالہ یوسف زئی تھی یا سیاسی طور پر بینظیر بھٹو صاحبہ ۔دیگر سیاسی حوالے سے بھی مختلف ادوار خاص پرویز مشرف کی پالیسی سے متاثر تھے۔
آخر میں مرکز الحریم کی طرف سے انکو ہدیہ پیش کیا گیا جو خود مہتمم صاحب نے ہمارے سامنے سب سے پہلے سوال کرنے والے طلبہ کو پیش کیا
یہاں سے رخصت ہوتے ہوئے طالبات بڑی محبت اکرام سے ہمارے ہاتھ چومتی رہی یہ انکا مہمان کے ساتھ اکرام کا طریقہ تھا ساتھ ہی ایک بات وہ مہمان کے سامنے عام وہ خاص کے سامنے سے گزرتے ہوئے جھک کے جاتے ۔
اس سے بڑھ کے وہ خود ہمیں اپنے اسٹوڈینٹ کے ساتھ اپنی گاڑی میں ہماری عارضی ریائش تک چھوڑنے ائے۔بہت ہی احترام و عزت کا معاملہ فرمایا،اب یہاں سے ایک بہترین تاثر لیے ہم لوٹے اور اگلے دن شام دوسرے شہر ملانگی پہنچنا تھا جہاں مدرسہ اسواجا میں مہتميمہ مستغفرہ صاحبہ کی دعوت پر ہمیں جانا تھا۔ تیاری پکڑی کیوں کے اب وقت ہمارے پاس کم تھا اور ہم زیادہ سےزیادہ مدارس میں جانا چاہتے تھے۔
مدرسے میں جانے سے قبل بڑا ہی دلچسپ واقعہ پیش آیا کہ گاڑی جو ہمیں لینے کے لئے بھیجی گئی تھی انہوں نے ہمیں ایک دوسرے مدرسے کے سامنے اتار دیا کافی غور و فکر کرنے کے بعد میں نے معلمہ سے کہا یہ وہ مدرسہ نہیں جہاں ہمیں جانا تھا، ایسی اثنا میں مدرسہ کے احاطے میں قرآن کریم کی تلاوت کرتی ہوئی بچیاں بڑی شوق میں انہماک سے ہمیں دیکھ رہی تھی ایک بچی کو قریب کیا اور اس سے مطلوبہ مدرسے کا پوچھا تو ہمیں ہاتھ پکڑتی ہوئی شام کے اندھیروں کو عبور کرتے ہوئے مدرسے پہنچا دیا ۔
جہاں ہمارا بہت ہی گرم جوشی سے استقبال کیا گیا مستغفره صاحبہ بہت ہی دوستانہ ہنس مکھ مزاج کی خاتون تھی کچھ ہی لمحات میں ہمیں گرم قہوا بھی پیش کیا اور ان سے بہت امور پر گفتگو ہوتی رہی میری اس وقت توجہ انکی سامنے نظر آتی اس درسگاہ پر تھی جہاں بچیاں قرآن پڑھ رہی تھی اور استاد بھی بیٹھے ہوئے تھے نماز عشا کا وقت ہوا تو اسی درسگاہ میں طالبات نے باجماعت نماز پڑھی۔
دورانِ گفتگو جو بات سمجھ ائی کے ان کے یہاں قریبا وطالبات ایک دوسرے سے متعارف ہوتے ہیں کہ ایسے واقعات بہت ہی شاذ و نادر ہوتے ہیں جہاں جنس مخالف کا ایک دوسرے کے ساتھ کوئی تعلق یا اس طرح کی کوئی کہانیاں سنے کو ملے اور ساتھ ہی تربیت کا حصہ ہےکہ اپنی حدود معلوم ہو،ساتھ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ وہاں کے طلبہ و طالبات راستے سے گزرتے ہوئے یا درس گاہ جاتے ہوئے ایک دوسرے سے گفتگو بھی کر رہے تھے اور انتظامیہ کی جانب سے ان پر کوئی ایسی نظر نہیں تھی( جب کہ ہمارے یہاں تک کہ عام حالات میں میں بھی اگر کسی سے ضروری امور پر بات کر لی جائے تو اردگرد کے لوگ اس طرح کے دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ اگلے دن اخبار میں کہانی شائع ہونا ہی رہ جاتی ہے،ایک بہترین تربیت کا ہی نتیجہ ہے کہ ہمیں وہاں طلبہ و طالبات يا عام مرد و خواتین کے بیچ طور میں ایسی نظری ایسا ماحول نظر نہیں آیا جو عمومی طور پر بہت ہی معذرت کے ساتھ پاکستان یا ہمارے اردگر میں ایک دیکھا جاتا ہے)
اسٹوڈنٹس کے ساتھ نشست بہت ہی دلچسپ رہی ہیں ہی ساتھ خود مہتممہ صاحبہ ترجمہ کر کے اسٹوڈنٹس کو سمجھاتی رہی بعد میں ان کی جانب سے بھی سوالات بڑے ہی زبردست قسم کی موصول ہوئے جیسے اکثر بچے فلموں کی وجہ سے پاکستان انڈیا کو جانتے تھے ایک مشہور فلم بجرنگی بھائی جان کا نام بھی لیا اور ساتھ ہی سوال بھی کیا کہ آپ یہاں سے جائیں گے تو کیا انڈونیشیا پاکستان کے علمی روابط پر کوئی کام کریں گی، ایک سوال علماء فاضل حضرات کے حوالے سے تھا معاشرے میں ترقی کے حوالے سے آپکے پاس کیا اسباب ہے۔
اس طرح کے اور بھی گی سوالات جو بالکل بااختیار اور میرے لیےغیر متوقع تھے۔ ان میں سے کچھ اسٹوڈنٹس کو انگریزی نہیں آرہی تھی جو ساتھ ہی گوگل پر لکھ کر اپنا سوال لکھ رہے تھے اور یہ اس بات کا ثبوت تھا کہ ان کے اندر چیزوں کی تحقیق، سمجھنا انکو جاننا اِسکی کی کتنی زیادہ صلاحیت موجود تھی۔
بہت خوشی کے لمحات لیتے ہوئے ہم وہاں سے رخصت ہوئے اور کچھ سوالات کا بوجھ لیے سوچتے رہے کہ آخر ہمارے بے شمار پاکسانی علماء جن کے بہت مختلف ممالک کے دورے اردگرد خبروں میں آئے دن نظر اتے ہیں لیکن یہ تو اسٹوڈنٹس ان میں سے کسی کا نام بھی نہیں جانتے، جانتے ہیں تو صرف ان لوگوں کا نام جن کی کتابیں ان کے پاس ترجمہ ہو کر آئیں ہیں ۔
اگلے دن ہم یوگ یکارتہ پہنچے جہاں ہم نے ٹرین سے جکارتہ جانا تھا
انڈونیشیا میں ایک بات جو میں نے دیکھی یہاں پر فقیر مانگنے والے حضرات کہیں پر بھی ہمیں نظر نہیں آئے ہر شخص کوئی نہ کوئی کام کرتا نظر آیا اور وہی اس کا ذریعہ معاش ہوتا چاہے وہ میوزک بجا کر ہو کیا یا کسی سڑک پر اپنے ھاتھ کی کسی اشیاء کی فروخت میں مصروف یہاں تک کہ بوڑھے سے بوڑھا شخص بھی اپنے روزگار میں مگن نظر آیا۔
ساتھ ہی مسجد میں ظہر کی نماز کی ادائیگی کرتے ہوئے تھوڑا ہی دور چلے تھے کہ میری نظر چرچ پر پڑی تھوڑا ڈرتے جھجکتے ہوئے کہا میں نے کبھی چرچ نہیں دیکھا کیا ہم اندر جا سکتے ہیں؟ معلمہ نے پرسکون انداز میں کہا کوئی مسئلہ نہیں ہم دیکھ لیتے ہیں جوتے اتار کر اندر گئے ، اور پہلی دفعہ وہ چیزیں دیکھیں جن کے بارے میں اکثر نشستوں میں صرف پڑھا تھا (ادیان بین المذاھب) ابھی ہم چیزوں کو دیکھ ہی رہے تھے کہ ایک آدمی نے دیکھا اور اندر جا کر خواتین کو بتایا ہماری موجودگی کے بارے میں ابھی ہم سوچ رہے تھے یہاں سے جانے کا لیکن معلمہ نے کہا ایسے مناسب نہیں ملاقات کر لیتے ہیں،
تین خواتین باھر ائی اور ہماری طرف حیرت سے دیکھتے ہوئے بہت ہی اچھے انداز سے ملیں اور چرچ کی ترتیب کے حوالے سے بتاتی بھی رہی انگریزی میں تو بات نہیں کر پارہی تھی لیکن ہمارے سوالات اور جوابات سمجھ رہی تھی۔ یونہی بات کرتے ہوئے ہم باہر نکلیں وہ اشارہ کر رہی تھی ہمارے پیروں کی طرف ایک سیکنڈ کو سمجھ میں نہیں آیا لیکن اگلے ہی لمحے مسجد نزدیک یعنی کہنا یہ چاہ رہی تھی یہ مسجد نہیں آپ لوگوں نے جوتے کیوں اتار دیے۔
یہاں سے نکلتے ہوئے میرے ذہن میں ایک بات آئی جو میں نے بلا تکلف معلمہ سے کہیں کہ یہاں مسجد ہو یا چرچ ہو ان لوگوں کو کسی سے کوئی ڈر و خوف نہیں کہ مسجد میں چاہے غیر مسلم آئے یا چرچ میں مسلم جب کے ہمارے حالات ایسے ہے کہ ایک مسجد میں اگر آپ کسی دوسرے مسلک کو فالو کرتے ہوئے نماز پڑھے یا رفع یدین کر لیں تو لوگ اس کو گھور کے دیکھنا شروع کر دیتے ہیں
یہاں ہر کوئی اپنے کام میں اپنی زندگی میں مگن نظر آیا ایک دوسرے کی عزت اور احترام دوسری ایک اور بات جو یہاں پر دیکھی کہ لوگ بہت ساری جگہوں پر پوچھتے آپ کہاں سے ہیں ؟جب ہم ان کو بتاتے کہ ہم پاکستان سے ہیں شعبہ تدریس سے وابستہ ہے تو فوراً کہتے استاد ہیں ؟ محبت اور احترام سے ملے جلے جذبات انکے ہوتے مزید جھک کر سلام کرتے۔ کی مرتبہ ایسا بھی ہوا زمین اور جوتے اتار کے بیٹھ جاتے کے آپ تدریس سے منسلک ہے استاد ہیں۔
ہم ایک اسلامی نمائش میں گئے میں ایک چیز کی غور سے دیکھ رہی تھی جب کے معلمہ صاحبہ ساتھ ہی اسکے ساتھ جو ہسٹری لکھی ہوئی تھی اِسکو پڑھنے میں مگن نظر ائی،جب کے میں انِ تمام کے اسکرین شاٹ لیتی ہوئی دوسرے روم کی طرف بڑھ جاتی ہلکا ہلکا سا ساز کمروں میں مناسب روشنی کا حسین امتزاج ماحول کو بڑا ہی خوب صورت بنا رہا تھا مزید اشیاء جسمیں قرآن کریم کے نسخے بہترین پینٹنگ جس پر خوب صورت خطاطی سے آیت مبارکہ لکھی ہوئی تھی کہیں پر مکہ مکرمہ کا پورا ایک قدیم لکڑیوں سے بنا خاکہ تھا،اسکے ساتھ ہی ایک اور چیز جسکو ایک ریسرچ میں سر سری نظر سے پڑھا تھا کوگن (cogan betel is Big) اسکے بارے میں پوری ایک ہسٹری ہے مختصر اِسکو ایک مضبوط خود مختیار ریاست کی طاقت اور عظمت سمجھا جاتا تھا۔یہ خالص سونے سے بنا ہوا پان کے پتے کی طرح ہے۔
ساتھ ہی اور بھی بہت سے ایسی نایاب و نادر اشیاء موجود تھی جو اپنے اندر ایک تاریخ سموئے ہوئے تھی
آخر میں ایک بہت ہی دلچسب ایریا تھا جہاں ایک ایک خاکہ نما پیپر تھا جسمیں اپنی مرضی کے رنگ بھرے جارہے تھے اسکے ساتھ ہی نوٹ بک مختلف رنگوں کی تھی جس پر ہر جانے والا کچھ نا کچھ تاثرات لکھ رہا تھا کوئی اس ہم نے بھی دیر نا کی اور اپنا میسج پاکستان کے جھنڈے کے ساتھ یاد کے طور پر چھوڑ ائے۔
یہاں سے جیسے ہی نکلے ایک دوسرا بڑا دروازہ نظر ایا لوگ اسمیں بھی داخل ہوتے نظر آرہے تھے معلمہ نے کہا چلیں یہاں بھی دیکھتے ہیں کیا ہورا ہے داخل ہوتے ہی مدھم ساز نے گویا استقبال کیا ہو زیادہ تر یہاں ٹومبک (Tombak) یعنی نیزے تلوار برچھياں جو پوری دنیا کی جنگی تہذیب میں پائے جاتے ہیں(انڈونیشيا میں Spear نیزہ ایک اہم ہتیھار ہے جیسے انڈونیشی فوجی استعمال کرتے ہیں) تاریخی اعتبار سے یہ بات لکھی جاتی ہے لوہے اور دیگر دھات کی کمی تھی تلوار بنا مشکل ہوا تو نیزوں کو بطور ہتھیار استعمال کیا جانے لگا ۔
اس جگہ پر بھی اس کی ہسٹری تھی اور ساتھ ہی انکے ثقافتی لباس کی تیاری کے نمونے، اور روایات کا عسکس نظر آتا ارہا کافی وقت ہوچکا تھا اور تھکن کے اثار اب شروع گئے تھے ۔
رخصت پکڑی اور معلمہ کے ساتھ تبصرہ جاری رہا آخر کار مجھے وہ ناریل پانی کی دکان نظر ائی گی جسکی تلاش ہم کافی کر رہے تھے۔اگرچہ یہاں اِسکی کثرت بہت تھی لیکن اکثر جگہوں پر جوس اور شراب ایک ساتھ دیکھ کر دل مطمئن نہیں ہوا لیکِن اس دکان میں صرف ناریل پانی تھا ہم اندر داخل ہووے اس وقت ہلکی بارش شروع ہوگی تھی ناریل پانی کی کٹینگ کے مراحل اپنے موبائل میں بطور یاد داشت سیو کرتے رہے یہ اللہ کی نعمتوں سے تھا جس سے اللہ نے نوازا میں نے معلمہ سے کہا ہمیں معلوم بھی نہیں اور ہمارا رزق یہاں تیار ہورا تھا سالوں پہلے یہ درخت لگے ہونگے اسمیں ہمارا حصہ بھی نے اللہ دیا تھا۔
یہی باتیں کرتے ہوئے ہم ہوٹل آگئے سامان اور دیگر تیاری مُکمل کی صبح ہمارا آخری دورہ انڈونیشیا مدرسہ علی مقصوم تحفيظ النساء میں تھا۔
اگلی صبح کا آغاز خوش گوار موسم، ہلکی ہلکی بارش کے ساتھ نئی عزائم لئے ہم رواں ہوگے ڈاکٹر عصمہ اپنی کچھ مصروفیت کی وجہ سے نا آسکی لیکِن اپنی طالبہ خیرہ صاحبہ کو ہمارے ساتھ بھیج دیا جو کافی خوش مزاج تھی۔(یہ کہنا قطعی مبالغہ نہیں ہوگا کے یہاں کے لوگ بہت خوش اخلاق، دوستانہ مزاج،دوسروں کی مدد کرنے والے بغیر کیسی مفاد کے شخصیت کے حامل ہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہر جگہ بہترین معاون عطا فرمائے) یہ پوری ایک کالونی کی طرح سے تھا یہاں بہت مدارس تھے مدرسہ بیت التحفیظ النفیسہ بہت ہی خوب صورت عمارت اور انتہائی نفیس آرائش سے مزین تھا ہم مہمان خانے میں داخل ہوے تقریبا 4,سے 5 خواتین پہلے سے ہی موجود تھی سلام دعا و مختصر تعارف کے سلسلے کے ساتھ ہی ہمیں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا خیرہ صاحبہ ماشاء اللہ بہت ہی اچھے انداز میں خواتین کو ہمارے بارے میں بتا رہی تھی زیادہ خواتین عربی زبان سے واقف نظر ائی، اسکے ساتھ ہی ہمارے سامنے کافی لوازمات رکھ دیئے گئے ساتھ ہے انکے کچن سے ایک خاتون اتی اور ہر کچھ دیر میں مزید کچھ فروٹ، بسکٹ لارکھ دیتی، مہتممہ صاحبہ سے متعلق معلوم ہوا کہ ضروری میٹینگ میں ہیں ایک گھنٹہ یا زائد لگ سکتا ہے اس وجہ سے کچھ تردد میں پڑ گئے ہمارے ساتھ خواتین بیٹھی تھی وہ کچھ لفافے وہاں موجود ایک زمے دار لڑکی کو دے کر چلی جاتی تاثر یہی جارہا تھا کے وقت اور گفتگو کا موقع نہیں ملے گا۔
اسی دوران ایک اور خاتون تشریف لائیں جب خیرہ صاحبہ نے ہمارے متعلق بتایا تو فورا ہمیں باری باری اپنے گلے لگا لیا اور بہت دیر تک بڑی محبت سے ہاتھ پکڑی رہی بہت محبت سے کہنے لگی آپ ہمارے گھر چلے ہمارے ساتھ وقت گزاریں لیکِن ہم معذرت کرتے ہووے بتایا اج ہمارا آخری دورہ ہے ہماری فلائٹ ہے۔خاتون کچھ افسردہ نظر ائی ساتھ ہی انہوں نے ہمارے ساتھ انہوں نے خیرہ صاحبہ کو کہا کے انِ لوگوں کےساتھ میری تصویر بنائیں میں انکے ساتھ ہی تھی جب کے معلمہ سامنے صوفے پر میں اس فرمائش پر ذہنی طور پر تیار نہیں تھی اتنے میں خیرہ صاحبہ میرے کان کے پاس آکر بتاتی ہیں میں آپکی تصویر ڈیلیٹ کر رہی ہو(اس وقت میرا نقاب نہیں تھا) کیوں کے آپ لوگ نقاب کرتے ہیں اس بات نے میرے دل میں انکی عزت و احترام اور بڑھا دیا کتنے باشعور لوگ ہیں۔ دوسرے کے معاملات وحقوق کا تحفظ کرتے ہے۔ معلمہ ایسے معاملات میں بڑی مستعد نظر آتی تھی (مجھے یاد ہے راتو کلی نعمت میں جب ایک انڈین دوست کئی بار اصرار كر چکی تھی کہ یہاں اس جگہ تو کوئی مرد نہیں ہے پھر آپ لوگ یہ نقاب کیوں کررہے ہیں تو معلمہ انکو بڑے اطمینان سے بتاتی ہمیں عادت ہے ہم ایسے ہی ٹھیک ہیں) اِنتظار کی گھڑیاں ختم ہوئی اگرچہ اس دوران ہم بالکل بھی نہیں اکتائے تھے خدمت گار خواتین ہماری میز خالی نہیں چھوڑ رہی تھی دودھ، کافی اعلیٰ ذائقے دار قہوہ جات اور معلوم نہیں کیا کیا ہر تھوڑی دیر لاکے رکھ رہی تھی ۔
اسی اثنا میں ایک بڑی خوب صورت باوقار نفیس زیورات میک اپ (جو انکے اور سوٹ کر رہا تھا) نسیت، عفوا کہتی ہوئی داخل ہوئی، شخصیت کا سحر ایسا تھا کہ کچھ لمحات تک ہم انکو ایک نظر بس دیکھ ہی رہے تھے بہت محبت اور عقیدت سے ملی اور جو روایتی مہتممہ والا تاثر تھا وہ یکسر ختم ہوگیا اس علاقے میں بہت سے سید گھرانے تھے انکو ہے تحاشا عزت دے جاتی انکے ساتھ ديھمے لہجہ اختیار کیا جاتا کوئی بے ادبی نہیں کرتا تھا اسکا اندازہ ہمیں اس طرح ہوا کے ایک خاتون ائی مہتممہ سیدہ صاحبہ نے اپنی جگہ انکو بٹھایا آنے والی خاتون بھی سیده تھی خواتین جھک کر انکو سلام کر رہی تھی مہتممہ صاحبہ خواتین کو خالی ہاتھ نہیں بھیج رہی تھی خوب صورت ہدیہ انکے ساتھ دے رہی تھی۔
ہم انِ چیزوں کا مشاہدہ کرنے میں مگن تھے کہ انہوں نے ہمارے لئے (بغیر کسی بھاگ دوڑ کے) روایتی کھانوں دسترخوان ( ڈائننگ ہال میں) لگا دیا
کھانے سے فراغت کے بعد مہتممہ صاحبہ کو معلوم ہوا کے ہم حافظات ہیں تو انہوں نے مدرسے کی ایک طالبہ کو بلایا اور معلمہ سے کہا کہ آپ انکا امتحان لے معلمہ نے تقریبا 3 مقامات سے امتحان لیا بچی نے بڑے پیارے لب و لہجہ میں ہر جگہ سے نہایت ٹھراؤ کے ساتھ سنایا، یہاں حافظہ کے لئے کریمہ شریفہ جیسے القابات استعمال کئے جاتے اور حفاظ کرام کا بہت ہی زیادہ احترام ہوتا خود اس وقت اس مدرسے میں تین سو سے زائد بچیاں حفظ کی تعلیم حاصل کر رہی تھی فجر سے پہلے سبق سناتی اسکے بعد اسکول کالج کے لئے جاتی( ایک تاثر جو عمومی طور پر ہمارے یہاں پایا جاتا ہے حفظ کی تعلیم کے ساتھ دوسری عصری تعلیم کا سلسلہ یا بالغ بچيوں کا حفظ کرنا مشکل و نا ممکن تصور کیا جانا) جو اس بات پر دلیل تھا کہ انکے یہاں حفظ کی اہمیت اور حافظہ کا اکرام کس قدر ہے،ایک اور بڑی دلچسپ بات کے مذہبی گھرانے کا رشتہ کیسی دوسرے مذہبی گھرانے میں ہی ہوتا تھا۔
مہتممہ صاحبہ ہمیں مدرسے کے دورے پر لے گئی خیرہ صاحبہ نے معلمہ سے کہا آپ انِ سے دعا کے لئے کہيں، معلمہ کے كہنے پر انہوں نے بہترین انداز میں دعا کروائی ابھی ہم آٹھ ہی رہے تھے کہ انہوں نے معلمہ سے کہا آپ بھی استاد ہے اس لیے آپ بھی دعا کروائیں پھر معلمہ نے بھی دعا کروائی ۔
واپسی اور الوداعی کلمات جاری تھے کے انہوں نے بہت سارے بیگ جسمیں بہت زیادہ پھل،میوے انکو روایتی لباس قلم اور بہت کچھ ہمارے ہاتھوں میں دے دیا انکا یہ اکرام و محبت ہمارے لئے بہت حیران کن تھا خيرہ صاحبہ نے ہمیں يوں تردد میں دیکھا تو بتانے لگی کے آپ پاکستان سے ہے حفاظ استاد ہے اس لیے سیدہ صاحبہ نے آپکا بہت اکرام کیا انکے یہاں یہ خاص لوگوں کے لئے ہوتا ہے۔دل میں تشکر لئے ہم ہوٹل کی طرف لوٹے تقریبا رات 9 بجے کی ہماری بکنگ تھی اسٹیشن قریب ہونے کی وجہ سے ہم نے دو گھنٹے قبل نکلنے کی ترتیب رکھی۔
میرا ہر جگہ سے جاتے ہوے کچھ دل افسردہ ہوجاتا، ہرجگہ کی خوشبو لوگوں کی محبت کی یادوں کو سمیٹتے ہوئے ہم اپنے سفر پر روانہ ہوگئے،ٹرین کا سفر میں پہلے بھی کر چکی تھی سو اندازہ تھا سفر اچھا ہی ہوگا۔
6 ؑصبح ہم جکارتی پہنچے ،وقت گزر گیا مسافروں نے راہ سامان سمیٹا ساتھ ہی معلمہ نے کہا کہ بس آپکی چائے لیتے ہے اور یہاں سے ایر پورٹ نکلتے ہے( صبح بغیر چاے کے میری آنکھیں کھلنا اور بغیر ناشتے کے چلنا بہت مشکل ہوتا ہے لیکن وہ سفر ہی کیا جہاں مشکلات نا ہو، یہی چیز انسان کو مضبوط بناتی ہے) ایک شاپ پر رکے بڑی تصدیق کے بعد انہوں نے کہا کے یہ چائے ہے لیکِن جیسے میرے ہاتھ میں ائی بلیک قہوا کافی کچھ عجیب سا تھا دکان پر دوبارہ گی اور انکو سمجھایا اسمیں دودھ / پوڈر کہا ہے؟ کافی دیر سمجھانے کے بعد بتایا یہی ہوتا ہے انِ کے پاس، معلمہ میرے تاثرات دیکھ رہی تھی انکو معلوم تھا یہ پینا میرے لیے مشکل ہے انہوں نے کہا آپ کے لئے اگے کہیں سے دیکھ لیتے ہیں۔

آگے بڑھتے جاتے یہاں تک کے ايرپوٹ پر پہنچ گے سب سے پہلے امیگریشن کے مراحل پورے کیے اپنے مطلوبہ گیٹ نمبر تک پہنچتے پہنچتے ہمت بس ہوگئی تھی میں نے معلمہ سے کہا باجی بس اب نہیں چلا جارہا معلمہ شفقت سے کہتی بس تھوڑا سا اور( معلمہ کے بارے میں سب طالبات ہی جانتی ہے وہ اپنی فاضلات معلمات کے ساتھ بہت ہی دوستانہ تعلقات رکھتی ہے اصلاح کا طریقہ ایسا ہی ہوتا اچھے الفاظ کے استعمال کے ساتھ بتادیتی، انڈونیشیا کانفرنس میں اکثر کہتی نمل یہ دیکھے یہ سیکھے کیسے ہورہا ہے۔
حلقات میں اہم نکات کی طرف توجہ دلواتی رہتی آپ اسکو سنئے سمجھے انکے فتویٰ جاری کرنے کے نکات، وغیرہ ۔
رفیق سفر کی بہت ساری ایسی باتیں و عادات ہوتی ہیں جنکو ساتھ لے کر چلنا ایک دوسرے کے معاملات پر صبر کرنا یقینا بڑی بات اور اعلیٰ ظرفی کے زمرے میں اتی ہے)
اور آخر کار ایک جگہ نظر اہی گئی معلمہ نے خود جا بہترین کافی بنوائی ساتھ ہی ایک جگہ بیٹھ گئی اور حواس بحال کئے اتنے میں ہماری بینکاک فلائیٹ ہمارے اگلے سفر کی منتظر تھی انِ دس دونوں کی یادیں لئے اگلے سفر کی جانب قدم بڑھائے
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔