
قسط نمبر 6
تحریر: حیا حریم
کراؤن کے شاطر ذہن میں مسلمانوں کو ذہنی طور پر غلام بنانے کے بے شمار منصوبے آتے تھے ، جن میں سے ایک یہ تھا کہ اس نے جدید علوم کے معلم و استاد کے طور پر اپنے افراد کو فلسطین کے تمام اطراف اور اس کے شہروں میں بھیجنے کی تجویز دی ، یہ بہت جان دار تجویز تھی جس سے صیہونیوں کا دنیا میں اچھا تاثر بنتا کہ وہ علم و ترقی کے میدان میں خود ہی آگے نہیں ، بلکہ مسلمانوں کو بھی اس میدان میں راہ نمائی فراہم کر رہے ہیں جبکہ مسلمان ان سے مخالفت کرتے ہیں اور ان سے لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں ۔
اس مشن کے تحت فلسطین کے مختلف شہروں میں صیہونی و صلیبی مرد و خواتین تعلیم و تدریس کا عَلم لے کر نکل کھڑے ہوئے ، ان کا پہلا تاثر ہی یہ تھا کہ وہ مفت تعلیم فراہم کرتے ہیں کیونکہ انہیں اس مشن پر بھاری معاوضہ اپنے افسران اور این جی اوز کی طرف سے ملنے لگا ۔
لیکن دراصل وہ اس تعلیم کے جھنڈے کی آڑ میں مسلمانوں کے نظریات پر کاری ضرب لگارہے تھے ۔
مجھے معلوم ہوا ہے کہ وادی ء رملہ کے قریب مسلمان جوانوں نے ایک نئی جماعت ترتیب دی ہے ، جس میں وہ تحریکِ جہاداور حقوقِ فلسطین کے لئے کام کریں گے ۔ جارڈ نے کہا تو کراؤن نے چونک کر اسے دیکھا ۔
اور کوئی تفصیل۔۔؟ ا
ان کی جماعت کے امیر شیخ ہشام الرواحہ ہیں جنہو ں نے مسلمانوں کے لئے ایک مرکز کی بنیاد رکھی ہے، وہاں درس و تدریس سمیت جہادی امور پر بھی کام ہوتا ہے ، ان کی وادی کے درمیان میں جس جگہ یہ مرکز آباد ہوا ہے وہاں ان سے منسلک لوگ ہی رہتے ہیں ۔ جارڈ نے بتایا
یعنی صرف وہاں دہشت گرد تنہا نہیں رہ رہے ، بلکہ ان کے مکمل خاندان آباد ہیں ۔ کراؤن نے گہرا سوچتے ہوئے ہنکارا بھرا
یس ۔۔ یو آر رائٹ۔۔۔
اس وادی کے لوگوں سے غفلت برتنا ہمارے لئے بہت نقصان دہ ہوگا جارڈ۔۔ کراؤن مکمل طور پر فکر مند تھا
پھر کیا کرنا چاہئے ۔۔ اسی لئے تو آپ کو بتا یا ۔
اگر صرف یہ چند گنے چنے جوان ہوتے تو ہمارے لئے کوئی فکرمندی کی بات نہیں تھی مجھے فکر ہے کہ ان کے ساتھ ان کی عورتیں اور بچے بھی ہیں جو مکمل ان کی تربیت حاصل کر رہے ہیں ، اگران کی اولادیں ٹرین ہو جاتی ہیں تو اگلے کئی سالوں تک ان سے جان بچانا ہمارے لئے ناممکن ہوجائے گا ۔
آپ کی بات میں وزن ہے ۔
پہلی فرصت میں کچھ عورتوں کو ان کی وادی میں تعلیم سکھانے بھیجو ۔
بہتر ہے ۔۔ میں یہی کرتا ہوں ۔
کراؤن کی تجویز کے مطابق جارڈ کو تین ایسی یہودی لڑکیاں مل گئی تھی جنہیں اس وادی میں بھیجنا تھا ، لیکن اس بار مشن کو مزید سخت کردیا گیا تھا ، کہ ان تین لڑکیوں کو اس وادی میں اپنی شناخت مسلمان ہی ظاہر کرنی تھی ، کیونکہ ان کی معلومات کے مطابق وہاں مسلمان عورتوں کی عزت ہے اور اپنے ہدف تک اس طریقے سے بآسانی رسائی بھی تھی۔
اگلے کچھ دنوں میں وادی کے مرکز میں تین لڑکیاں مسلمان عورت کا جعلی روپ دھارے پہنچیں تھیں اور ان کا کہنا تھا کہ جب صلیبی اور صیہونی عورتیں تمام شہروں میں تعلیم کے مراکز کھول رہی ہیں تو مسلمان عورتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس میدان میں آئیں ۔
وادی میں موجود شیخ اعمش العمیر ان لڑکیوں کی باتوں سے بہت متاثر ہوئے اور انہیں اپنے گھر رہائش دینے پر رضامندی بھی ظاہر کر دی ۔
اگلے روز سمیہ ، اثمارہ اور اسماء نامی تین لڑکیاں اعمش العمیر کے گھر میں تھی ۔
اعمش العمیر کی بیوی سجنحلہ ایک سلجھی ہوئی خاتو ن تھی ، ان لڑکیوں کی موجودگی پر اس نے کوئی سوال نہیں کیا ، کیونکہ وہاں پناہ گزین عورتیں آتی رہتی تھیں ، البتہ وہ جان کر خوش ہوئی تھی کہ یہ عورتیں تعلیم یافتہ ہیں اس لئے اس کے تینوں بیٹوں کو پڑھانے میں مدد مل سکے گی ۔
وہ تینوں ان کے گھر میں رہنے لگی اور انہوں نے محلے کے بچوں اور عورتوں کو تعلیم دینا بھی شروع کردی ،اس کے ساتھ ساتھ وہ سجنحلہ کی بھی بے حد شکر گزار رہتیں کہ اس نے انہیں اپنے گھر میں جگہ دی ہوئی ہے اسی احسان کے بدلے میں وہ اس کے گھر کا سارا کام کاج بھی کر دیا کرتیں ۔
آہستہ آہستہ ان لڑکیوں کی محنت اپنا رنگ دکھانے لگی ایک روز صبح اعمش نے حسبِ معمول اپنے بچوں کو صحابہ کے جہاد کا واقعہ سنایا تو اس کا بیٹا اسود العمیر انتہائی اکتاہٹ سے بول پڑا:
بابا تو چاہتے ہیں کہ ہم سب کو ایک بار مروادیں ، جبکہ ہمیں امن چاہئے ، ہم خون خرابہ اور لڑنا مرنا نہیںچاہتے ، دنیا میں خون ہو تو دنیا اچھی نہیں ہوتی ، دنیا میں امن ہونا چاہئے ۔
ہاں اسی لئے میں مرکز نہیں جانا چاہتا ، ہر وقت وہاں جہاد اور لڑنا ہی سکھا یا جاتا ہے ۔
اسود العمیر اور اخنس العمیر کے منہ سے یہ جملے سن کر اعمش کے اوسان خطا ہوگئے ، یہ جملے اس کے بیٹے کے ذہن میں کہاں سے آئے ، اس نے تو ہمیشہ ہی انہیں جہاد کی محبت سکھائی تھی، پھر یہ کیا خطا ہوئی تھی ، اس کے چہرے کا رنگ پریشانی سے بدلنے لگا ۔
سجنحلہ اعمش کی کیفیت کو بھانپ گئی ، اس نے پیالے میں پانی انڈیل کر اس کے سامنے رکھا اور اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر آہستہ سے بولی: بچہ ہے اور شاید نیند میں کہہ گیا ہے ، آپ فکر نہ کریں اور خود کو مطمئن رکھیں میں سمجھا دوں گی ۔
اعمش کچھ دیر تک خامعشی نگاہوں سے سجنحلہ کو دیکھتا رہا اور پھر مردہ قدموں سے اٹھ کرباہر نکل گیا ، اس کا رخ مرکز کی طرف تھا ، آج وہاں سالانہ اجتماع تھا، محلہ بھر کے بچے اپنے والد کے ہمراہ جوش و خروش سے اسی طرف جارہے تھے ، یوں محسوس ہوتا تھا جیسے آج عید کا دن ہے ، اعمش خاموش سا چلتا رہا ۔
مرحبا یا اخی مرحبا!! کچی سڑک کے کنارے پر کھڑے عثمان نے اسے پکارا تو وہ زبردستی مسکراتے ہوئے اس کی طرف بڑھ گیا ، عثمان اپنے تین بیٹوں اور دو بھانجوں کو ساتھ لئے جا رہا تھا ۔
چچا ! اسود کہاں ہے ؟ اس کے بیٹے نے کہا تو اعمش جواب میں خاموش رہا ۔
عثمان اس کے چہرے سے سمجھ گیا کہ کوئی معاملہ درپیش ہے ۔
ارے ۔۔ کیوں پریشان ہو؟ بچوں کو کیوں نہیں لائے ۔
دراصل اسود کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں تھی اس لئے اسے ساتھ نہ لاسکا ۔
اچھا ۔۔ اس لئے تم پریشان لگ رہے ہو ۔۔
ہاں ۔۔ چلو ۔۔
عثمان اور وہ دونوں ساتھ چلنے لگےجبکہ اس کے بچے آگے آگے دوڑتے کھیلتے جا رہے تھے ۔
دوست ! تم اپنے بچے کی بیماری سے ہی اتنا گھبرائے ہوئے لگ رہے ہو جبکہ ہم وہ لوگ ہیں جو موت سے نہیں گھبرایا کرتے۔ عثمان نے اسے تسلی دی ۔
عثمان ! میں اپنےبچے کی جسمانی بیماری سے اتنا خائف کبھی نہیں ہوا ، جتنا اس کی روحانی بیماری سے ڈرتا ہوں ، اگر میرے بیٹے کا جسم مر جائے تو صرف میرا گھر ویران ہوگا ، لیکن اس کی روح اور دل مرجائے تو امتِ مسلمہ کی صفوں میں نقصان پیدا ہوگا۔
نا امیدی کی باتیں کیوں کرتے ہو، تمہارا بیٹا تو بہت اچھا اور جذبہء جہاد سے سرشار ہے بھلا اس کی روح کے مرنے کا سوال کیسے پیدا ہوسکتا ہے ۔
اعمش خاموش ہوگیا اور خاموشی سے اس کے ساتھ مرکز میں داخل ہوگیا ، جہاں روح کو گرما دینے والی گفتگو کی بعد شیخ ہشام الرواحہ رقت انگیز دعا کروا رہے تھے اور ان کے ساتھ ساتھ سب ہی آنسوؤں اور آہوں کی صداؤں میں یا رب العالمین ، آمین آمین کی صدائیں لگا رہے تھے ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کراؤن کے مشورے رنگ لا رہے تھے ، اسرائیل و امریکہ کی بہت سی مصنوعات پاکستان سمیت دیگر تمام اسلامی ممالک میں تشہیر کی جانے لگیں ، اسرائیل کی کمر امریکہ کی پشت پناہی اور اپنی مصنوعات کی فروخت کی وجہ سے مضبوط سے مضبوط تر ہونے لگی، حالات پلٹا کھا رہے تھے ، اسرائیل تیزی سے منفعت کا سفر شروع کر رہا تھا ۔
جارڈ خوشی سے پھولے نہ سما رہا تھا ، اسے جیسے ہی اپنے تجارتی منافع کے بارے میں علم ہوتا وہ یوں ہی خوش ہوا کرتا تھا ۔
اس بنیاد پر ان کے پاس بہت سا جدید اسلحہ آچکا تھا ، جسے بظاہر وہ اپنی حفاظت کے لئے اپنے لوگوں کو دیتے تھے ، لیکن اس کا مقصد مسلمانوں کو تکلیف پہنچانا ہی تھا ۔
مغیرہ کے لئے یہ بہت تکلیف دہ مرحلہ تھا کہ دیگر مسلمان ممالک میں اسرائیل کی مصنوعات سے حاصل کئے جانے والا منافع یہاں فلسطینیوں کو خون میں نہلانے کے کام آرہا تھا ۔
اس کا دل چاہتا تھا کہ ہر ہر فلسطینی بچے کو جا کر جھنجھوڑے اور انہیں بتائے کہ ” اے امتِ اسلام ” کی آوازیں لگانا چھوڑ دیں کیونکہ وہی ان کے قتل میں شریک ہیں ۔
دوسری طر ف شیخ ہشام الرواحہ کو آئے روز ایک نئی خبر سننے کو مل رہی تھی ، بزدل دشمن اب سامنے آکر نہیں لڑ رہا تھا ، کسی شہر میں بازار کو راتوں رات آگ لگا دی جاتی ، کبھی کسی فسلطینی محلے پر اچانک سے بمباری کر دی جاتی ، تو کبھی فلسطینی بچوں کے اسکول بس اور وینوں کو سر راہ گولیوں سے بھون دیا جاتا ۔ فلسطینی مسلمانوں کے لئے یہ کوئی نئی بات تو نہیں تھی ، لیکن اس سے قبل یہودی ان کے سامنے آکر لڑتے تھے ، جس کے جواب میں فلسطینی ان کا گریبان پکڑ کر انہیں دبوچ سکتےتھے ، انہیں خائف کر سکتے تھے ، لیکن اب بزدل دشمن پیٹھ پیچھے سے وار کر رہا تھا۔ جاری ہے
درد سے بھر پور ناول اللہ اکبر ۔ قسط تھوڑی بڑی ہونی چاہئے