
چوتھی قسط ( تحریر ) حیا حریم
باطل پرستوں کی ایک بڑی نفری نہایت آن بان سے خدا کے حرم میں دندنا رہی تھی ، اس ساری کھیپ کی رہائش کا بندوبست یروشلم میں واقع ایک عمارت میں کیا گیا تھا
دوسری جانب رویفع بھی فلسطین بہت چکا تھا اور امیر ِ مسلمانان شیخ ہشام الرواحۃ کے روبرو صیہونی منصوبہ بیان کر رہا تھا ۔
اور ان سے بہت دور ۔۔۔ بلکہ اپنوں سے بھی دور ، بہتے چشمے کے ارد گرد بکھرے پتھروں پر بیٹھا مغیرہ کسی گہری سوچ میں گم تھا اسے شدت سے گھر، فریشہ اور پاکستان یاد آرہا تھا لیکن رابطے کے تمام راستے مسدود تھے ۔
بے کیف سئ مئے ناب ہی معلوم نہیں کیوں
پھیکی سی شبِ مہتاب ہے معلوم نہیں کیوں
دل آج بھی سینے میں دھڑکتا تو ہے لیکن
کشتی سی تہ آب ہے معلوم نہیں کیوں ۔
وہ خاموش سا خلاؤں میں گھور رہا تھا ، اپنے پیچھے آہٹ سن کر مڑا تو عبداللہ فلورا کو آتا دیکھ کر مسکرا اٹھا ۔
مرحبا!! مرحبا!!
شکرا اخی۔۔ وہ بھی مسکرا یا ۔۔کہ یہاں وہ عربی کے بنیادی الفاظ سیکھ چکے تھے ۔
اس تنہائی میں کس فراق میں بیٹھے ہو ؟
سوچ انسان کا ایسا ساتھی ہے جو کبھی بھی داغِ مفارقت نہیں دیتا ،یہی غم کھاتا ہے کہ آخر یہ سوچیں فرقت کیوں نہیں دیتیں ۔
عبداللہ ۔۔مغیرہ کے قریب ہی ایک پتھر پر بیٹھ گیا ۔
مغیرہ۔۔ تم نے کل آنے والے مہمان کے بارے میں کچھ سنا ہے ؟
ہاں اتنا سنا ہے کہ ان کے اعزاز میں ایک عشائیہ رکھا گیا ہے جو کہ القدس کے صحن میں ہوگا اور سب لوگوں نے وہاں جمع ہونا ہے ۔
ہاں ایسا ہی ہے ۔۔ سب القدس کی طرف جانے کی تیاریاں کر رہے ہیں ، اسی لئے میں یہاں آگیا ہوں ۔
لیکن وہ کون ہے ؟ کوئی نیا بیڑا لے کر آیا ہے کیا ؟
نہیں ۔۔ اس کی کہانی مجھ سے سنو ۔۔ فلورا اس کے قریب ہوا ۔
کراون جارڈ ایک مشنری تحریک کا آدمی ہے ، اور اس کا کام ایسے افراد تیار کرنا ہے جو مسلمان ممالک میں کسی نہ کسی طرح صلیبی مشنری کو فروغ دے سکیں ، اور مسلمانوں کی اجتماعیت کو ختم کر سکیں ۔
اوہ۔۔۔ اگر ایسا ہوجاتا ہے تو سمجھ نہیں آتا کہ ہم کس ملک کی حفاظت پہلے کریں ۔
ہاں تم ٹھیک کہہ رہے ہو ۔۔ تمام اسلامی ممالک نظریاتی اور جغرافیائی دونوں طرح ہی جکڑے ہوئے ہیں ۔
تو ہم کس ملک کی حفاظت کریں ۔۔ پاکستان ، کشمیر، فلسطین یا عراق؟؟ سب ہی تو مظلومیت کی چکی میں پس رہے ہیں ۔
ہاں مغیرہ !! تم ٹھیک کہتے ہو ۔۔یکن ہمارا اولین فریضہ مسجد القدس ہے اس کی خاطر تو کئی ممالک قربان کئے جا سکتے ہیں ۔
ایک بات میں سوچتا ہو ں کہ فلسطین کو اتنی ترجیح کیوں دی جاتی ہے حالانکہ دوسرے ملکوں میں بھی تو مسلمان ہی بستے ہیں ۔ مغیرہ نے کچھ سوچتے ہوئے پوچھا تو فلورا ہنس دیا ۔
بھولے بھالے انسان ۔۔۔ کس نے کہا کہ صرف فلسطین کی حفاظت ضروری ہے اور ان ممالک کی ضروری نہیں ہے ؟
دیکھو!! عالم اسلام کے کسی بھی گوشے میں کسی بھی مسلمان پر کوئی مصیبت آئے تو اس کا سدباب کرنا تمام مسلمانوں پر فرض ہے البتہ القدس کو تاریخی اعتبار سے نہایت اہمیت حاصل ہے ، یہ مسلمانوں کا قبلہء اول رہا ہے ، حضرت اسحٰق علیہ السلام کے ہاتھوں تعمیر ہونے والا روئے پر خدا کا پہلا گھر ہے ، یہ شہر جسے مسلمان القدس کہتے ہیں اور یہود اسے یروشلم کہتے ہیں ، اسلام سے پہلے اس کا نام ایلیا تھا ، انسانی تاریخ کے مطابق یہ 45 صدیاں قدیم شہر ہے ۔ یہاں ساڑھے چار ہزار سال قبل عربوں کی ایک شاخ کنعانی اور یبوسی آباد تھے 2500 قبل مسیح انہوں نے یہاں اپنی بستیاں بسائیں اور قلعے تعمیر کئے ۔ پھر 1049ء قبل مسیح میںحضرت داؤڈ علیہ السلام نے اسے فتح کیا ، ان کے فرزند حضرت سلیمان علیہ السلام کے ہاتھوں اسے بہت ترقی ہوئی ۔ 586ءق م میں یہ اہل فارس کے قبضے میں آگیا ، جب بخت نصر نے یہاں یلغار کی ، یہودیوں کا قتلِ عام کی ، جو باقی بچ گئے انہیں غلام بنا کر بابل کو سدھار گیا ، فارد کا اقتدار اسکندر کے قبضے تک رہا جو 332 ق م میں ہوا ، پھر 63 ق م میں یہاں رومی قابض ہوگئے ، بادشاہ ِ روم ” ہیبر ڈوس” نے 135 ء اس شہر کو بالکل تباہ کردیا اور یہاں نیا شہر ” ایلیا کابتولینا ” کے نام سے بسایا، 614ٰء میں اہل فارس یہاں دوبارہ غالب ہوگئے اور یہاں کے گرجاؤں کو لوٹ کر ویران کردیا ، پھر ہرقل نے 627 ء میں اہلِ فارس کو غیر متوقع شکست دے کر یہ شہر دوبارہ فتح کر لیا اور یہاں پھر سے عیسائیت کا غلبہ ہوگیا۔
عبداللہ فلورا کہہ کر رکا تو مغیرہ اسے حیرت کے عالم میں دیکھ رہا تھا ۔
آپ کو اتنی تفصیل کیسے معلوم ؟؟
جس چیز سے محبت ہو اس کے بارے میں سب کچھ معلوم ہوجاتا ہے ۔ اور پھر یہ تو قرآن کریم کی سورۃ الروم میں بھی مذکور ہے اس کی تفسیر پڑھو گے تو سب جان لو گے ۔
سچ ہے کہ قرآن نہایت واضح کتاب ہے میں تو سمجھتا تھا کہ مسلمان ہونا صرف کلمہ، نماز کا نام ہے اس سے آگے کبھی غور ہی نہیں کیا ، مغیرہ نے ندامت سے کہا ۔
اس کی خاموشی دیکھ کر فلورا نے بات مزید بڑھائی۔۔ تو پھر بتاؤ کہ کس زمین کی حفاظت زیادہ ضروری ہے ؟
دیکھیں میرا دل کہتا ہے کہ القدس کی اب کتنی حفاظت کی جائے آخر ۔۔ روز اول سے تو یہ تنازعات میں رہا ہے اتنے انبیاء گزر گئے یہ غالب و مغلوب ہی ہوتا رہا ہے ، لڑے تو بندہ اس چیز پر جو ایک مرتبہ تلاشنے کے بعد ملے اور پھر کوئی اسے میلی نگاہ سے نہ دیکھ سکے ، ہم اسے حاصل کریں گے یہ پھر مغلوب ہوگا ، یہ تو کئی جانوں کا مسلسل ضیاع ہے ، کیوں نہ ایک مرتبہ امن و صلح کے ساتھ یہ یا تو یہودیوں کو دے دیا جائے ، یا عیسائیوں کو یا پھر ہمیں ۔۔۔ اور پھر ہمارے پاس کعبۃ اللہ مشرفۃ تو ہے ہی ، ہم کیوں اس کے پیچھے ادھ موئے ہوئے جا رہے ہیں ۔ مغیرہ نے عجیب تلاشتی نظروں سے فلورا کی طرف دیکھا ۔
دیکھو!! القدس پر حق تو مسلمانوں کا ہی ہے ۔ اور یہ بار بار کے غلبے اور مغلوبیت کا خیال صحابہ کے دل میں آتا اور وہ سوچتے کہ چھوڑوا لقدس کو، اس کے نصیب میں تو یہی لکگا ہے تو وہ کبھی اس کی بازیابی کے لئے اتنے بے قرار نہ ہوتے اتنی بار غالب و مغلوب ہونے کے بعد جب یہ دوبارہ مغلوب ہوگیا تو مسلمانوں میں سب سے پہلے خلیفہء ثانی سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ اس کے لئے بے چین ہوئے اور انہوں نے اسے بازیاب کروایا عرصہء دراز تک یہ مسلمانوں کے پاس رہا ، اموی اور عباسی خلفاء کے دور میں اسے خوب عروج اور ترقی ملی ، گیارہویں صدی عیسوی میں یورپی عیسائیوں نے اس پر دوبارہ قبضہ کر لیا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سلوک کے برعکس وہ مظالم ڈھائے جو ان کی انسانیت سے دوری ، کم ظرفی ، جہالت و عداوت کے طور پر یاد رکھے جاتے ہیں ، انہوں نے مسلمانوں کو مسجد میں لا کر ذبح کر ڈالا، مسجد میں اصطبلِ سلیمان کے نام سے گھوڑوں کا ایک اصطبل بنایا اور مسجد کے تقدس کو پامل کیا، 80 سال تک صلیبی عیسائیوں کے قبضے میں رہنے کے بعد اسلام کے بیٹے صلاح الدین ایوبی نے جان پر کھیل کر اسے 1187ء میںدوبارہ فتح کیا اور یہاں نہایت شاندار اسلامی تعمیرات کیں ، پھر یہ مسلمانوں کے پاس رہا ، لیکن انگریزوں نے 2 فروری 1944ء کو فلسطین پر قبضی کرلیا ،یہاں جو پہلا برطانوی کمشنر آیا وہ ” ہر برٹ سیموئیل نامی کٹر یہودی تھا ، برطانیہ اس وقت عیسائی ہونے کے باوجود یہودی مقاصد کی تکمیل کے لئے ہوری طرح آلہء کار بنا ہوا تھا لہذا دیدہ و دانستہ ایک سازش کے تحت یہاں یہودی کمشنر بھیجا گیا اور امریکا کی صیہونی تنظیموں نے یہودیوں کو یہاں زمینیں خریدنے کے لئے کروڑوں پاؤنڈ دئے ، رفتہ رفتہ یہودی مضبوط ہوتے گئے ، آخر کار یہودیوں نے برطانیہ کی سرپرستی میں 1948ء میں اسرائیلی سلطنت کے قیام کا اعلان کردیا اور 07 جون 1967ء کو اسرائیل نے پوری طرح مسجد اقصیٰ پر اپنا تسلط جمالیا اور یوں ایک ملی بھگت کے تحت ، امریکی و بر طانوی عیسائی و یہودی اسلام کے خلاف متحد ہوگئے اور یہاں اسرائیلی ریاست وجود میں آگئی ، اب دیکھو کون بندہء خدا علمِ جہاد لے کر اٹھے اور القدس کو پھر سے بازیاب کروا دے ۔
میں اٹھوں گا ۔۔۔ مغیرہ نے یکدم کہا تو فلورا ہنستے ہوئے بولا ۔
تم عجیب ہو۔۔ کبھی اشکال، کبھی سوال، کبھی اعتراض، اور کبھی جذبہء و جوش
اعتراض کبھی ہو جاتا ہے لیکن آپ کی برکتوں سے جلدی رفع ہوجاتا ہے
اچھی بات ہے ، جو بات دل میں آئے دریافت کر لیا کرو بہت شکریہ ،، مغیرہ انہیں ممنون بگاہوں سے دیکھنے لگا ۔
جاری ہے
پھر سے بہت بہترین پر جوش علم کا خزانہ جو کتابوں میں نہ مل سکے
بہت خوب